بہترمعاش اور محفوظ زندگی کی تلاش میں نسبتاً خوشحال ممالک تک پہنچنے کی کوشش کرنے والے جان لیوا خطرات مول لیتے ہیں تاکہ وہ اپنے اہل خانہ و خاندان کا مستقبل محفوظ بنا سکیں۔ ایسے لوگوں کی سلامتی عالمی سطح پر ایک سوال جبکہ عالمی ضمیر پر بوجھ کی صورت سامنے آیا ہے اور ترقی یافتہ ممالک میں انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے کام کرنے والی غیرسرکاری تنظیموں کے رضاکار ’سوشل میڈیا‘ کے ذریعے اپنی حکومتوں پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ مہاجرت اختیار کرنے والوں کے لئے آسانیاں پیدا کریں۔ خواتین و کم عمر بچوں کے مذکورہ قوانین و قواعد میں گنجائش پیدا کی جائے تاکہ مشکل ترین حالات میں اپنی آبائی سرزمین کو چھوڑ کر ہجرت کرنے والے‘ مجبوراً اپنی جانیں خطرے میں نہ ڈالیں اور اُنہیں قانونی ذرائع میسر ہوں۔ قابل ذکر ہے کہ ”انٹرنیشنل آرگنائزیشن آف مائیگریشن (IOM)“ نامی اقوام متحدہ تنظیم کے ذیلی ادارے نے اِس حوالے سے اعداد و شمار بھی جاری کئے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ ”گزشتہ آٹھ برس (سال 2014ء سے سال 2022ء کے درمیانی عرصے) کے دوران خوشحال یا محفوظ ممالک میں داخل ہونے کی کوشش کے دوران 52 ہزار ہلاک یا لاپتہ ہوئے ہیں۔“ ایسی غیرمصدقہ اطلاعات بھی ہیں کہ زمینی اور سمندری راستے سے یورپی ممالک اور امریکہ میں داخل ہونے کی کوشش کرنے والے بہت سے لوگوں کو ہلاک کر کے اجتماعی قبروں میں دفن کر دیا جاتا ہے۔ ”انٹرنیشنل آرگنائزیشن آف مائیگریشن“ کا ”گمشدہ تارکین وطن پراجیکٹ“ نامی منصوبہ ہر سال نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد سے متعلق کوائف (ڈیٹا) مرتب کرتا ہے اور اِن مرتب شدہ اعداد و شمار سے اخذ ہے کہ بہتر معاش اور حفاظت حاصل کرنے کی کوششوں میں مرنے والے زیادہ تر لوگ سمندر پار کر کے یورپ داخل ہوتے ہیں اور اِس دوران اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ مذکورہ (کم سے کم اور معلوم) باون ہزار اموات میں سے ساڑھے اکیس ہزار اموات سمندر میں ڈوبنے کی وجہ سے ہوئی ہیں جبکہ تقریباً ستائیس سو اموات نامعلوم وجوہات کی بنا پر ہوئی ہیں۔ تقریباً چودہ سو اموات سخت ماحولیاتی حالات یا مناسب پناہ گاہوں‘ خوراک یا پانی کی کمی کے باعث ریکارڈ ہوئی ہیں! عالمی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ ہجرت کرنے والوں درپیش مشکلات اور اموات سے متعلق اعداد و شمار صرف اُنہی کی زبانی اور اُسی وقت موصول ہوتے ہیں جبکہ وہ زندہ بچ جائیں۔ خوف اور نفسیاتی دباؤ (صدمے) پر قابو پاتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار کریں جبکہ زیادہ تر ایسے لوگ اِس خوف کی وجہ سے خاموش رہتے ہیں کہ وہ جان جوکھوں میں ڈال کر جس تحفظ کی خاطر اِس مقام تک پہنچے ہیں کہیں یہ اُن سے چھین نہ لیا جائے۔اقوام متحدہ کی مذکورہ رپورٹ میں حالات کی ”بھیانک تصویر (منظرکشی)“ کی گئی ہے جو اِس بات کا خلاصہ ہے کہ انسانوں کے ہاتھوں انسان مر رہے ہیں۔ انسانوں کے ہاتھ انسانوں کا مستقبل خطرے سے دوچار ہے۔ انسانوں کے ہاتھ انسان خوف و دہشت کا شکار ہیں۔ انسان اپنے جیسے انسانوں سے نفرت کر رہا ہے۔ مذکورہ آٹھ سالہ مطالعے (رپورٹنگ) میں سرحدی یا ساحلی محافظوں کے تشدد کی وجہ سے قریب ایک ہزار اموات ہوئیں ہیں جبکہ قریب 900 لوگ بیماری یا ادویات تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے بھی ہلاک ہوئے ہیں۔ زیادہ تر لوگ جو مقامی تنازعات کے باعث آبائی ممالک سے فرار ہوتے ہیں وہ تیز کشتیوں کا استعمال کرتے ہیں جو یا تو اونچے سمندر میں ٹوٹ جاتی ہیں یا گنجائش سے زیادہ مسافروں کے بوجھ کی وجہ سے یہ مسافر کشتیوں سے گر کر ڈوب جاتے ہیں۔ زیادہ تر کشتیوں میں پانی اور خوراک کی مقدار کافی نہیں ہوتی کیونکہ ’انسانی سمگلر‘ ان اشیا ء پر پیسہ خرچ نہیں کرتے جب کہ مسافروں کے خیال میں وہ سمندر کو تیزی سے پار کر لیں گے چونکہ ایسی زیادہ تر اموات بحیرہئ روم میں ہوتی ہیں‘ اس لئے یورپی ممالک اِن اموات کے لئے ذمہ دار اور جواب دہ ہیں۔ ’آئی او ایم‘ کی مذکورہ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ سال دوہزارچودہ سے اب تک ہونے والی کل اموات میں سے تقریباً نصف بحیرہئ روم کے علاقے میں اُس وقت ہوئی جب تارکین وطن لیبیا کے راستے سے یورپ میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔شمالی افریقہ کے دیگر ممالک جیسا کہ تیونس سے اٹلی جاتے ہوئے مہاجرین کو لے جانے والی کشتیاں ڈوبنے کے واقعات کثرت سے پیش آئے ہیں۔