نثار میں تیری گلیوں کے 

اپنے ہی شہر کے اجنبی راستے ہم کو آواز دے کے بلاتے رہے۔ پھر ہم جاتے رہے اور وہاں سے واپس اپنے آشیانے میں آتے رہے۔کیونکہ شام کو گاؤں کے پنچھی ضرور لوٹتے ہیں۔ شہر میں گاؤں کے پرندے بھلا کتنا رہن بسیرا کریں گے۔ دانہ دنکا چُگ لیں گے اور شام تک یا اس سے پہلے کہیں لوٹ ہی آتے ہیں۔اپنا شہر ہے اور ہم اس سے روز بروز عمر کے زیادہ ہوجانے پر زیادہ محبت نچھاور کرنے لگے ہیں۔کیونکہ آدمی کو عمر کے پچھلے حصے میں اپنا بچپن اور ماضی زیادہ یاد آنے لگتا ہے۔اس لئے ہمارا بچپن تو کیا ہماری جوانی کے دن رات بھی اسی شہر کی سردیوں  کی طویل اندھیری راتوں جیسی زلفوں پر نثار ہوئے ہیں۔جیسے کبوتر کہیں بھی اُڑ کر جاتے ہیں وہ واپس اسی گھر کی چھت کے بنیرے پر بیٹھ جاتے ہیں۔ہم  کہیں بھی جائیں اس شہر کی یادیں ہمارے ساتھ چپکی ہوتی ہے۔جن کو ہم اپنے بدن پر سے نوچ نوچ کر اتارتے ہیں مگر یہ مقناطیس جیسی حرارت رکھنے والی یاد اپنے توجسم سے الگ ہی نہیں ہو پاتی۔ جب میرے ہاتھوں میں بہت پیارے دوست پشاور کے ایک اچھے شاعراسحاق ورگ کی شاعری کی کتاب ”شہر میں گاؤں کے پرندے“ تھامی ہوئی ہوئی تھی تو اپنے شہر کے روزبروز اجنبی ہوئے جانے والے درو بام یاد آنے لگے۔مجھے لگا میرے سپنوں کو ”خواب گرہن“ لگ  گیا ہے۔ پشاور کے ایک اور حسین شاعری کے مالک ہلال رفیق کا ہفتہ بھر پہلے شائع ہونے والا شاعری کا مجموعہ بھی دل کو کچو کے دینے لگا۔اس کتاب کا نام بھی ”خواب گرہن“ ہے۔شہر وہ دیوارودر جن کے مناظر ہمارے دل کی آنکھ میں پوشیدہ ہیں وہ گھرجو آئے دن ڈھا کر نئے بنائے جا رہے ہیں۔یہ تعمیر ہے کہ اس کا سلسلہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔روز درجنوں گھر تعمیر ہو رہے ہیں۔پشاور کے اندرون کے رہائش ہمارے بھائی بند اپنے نگر کو چھوڑ کو دور پار معروف سڑکوں کے کناروں پر آباد جدید بستیوں کھلی آب ہوا میں خود کو قید کر کے خوش ہوئے جاتے ہیں۔یہ بھی ایک شیوہ فرسودہ ابنائے روزگار کاہے۔ جس کو تب سے جاری دیکھ رہے ہیں اور اب تک اس کا چلن عام ہے۔ کیونکہ یہ تو انسانی فطرت میں شامل ہے۔بلکہ انسان کیا یہ تو جانداروں کی سرشت میں ہے۔جہاں دانہ پانی میں تنگی محسوس ہوتی ہے وہ انسان ہوں یا پرندے ویرانوں کو چھوڑ کر نئے آشیانوں میں جا مقیم ہوتے ہیں۔سردی میں روس کے مقام سائبیریا کی برفانی چوٹیوں اور پے در پے پہاڑی سلسلوں کی کہیں دور نیچے گرے ہوئے درجہ حرارت کی یخ بستہ فضاؤں کو چھوڑ کر ہمارے حصے کے آسمان کا رخ کرتے ہیں۔جو ان کے لئے ہماری لہوجمادینے والی سردی میں گرمی کا کارن ہوتے ہیں۔وہاں کی کونجیں یہاں پہنچ جاتی ہیں۔”جہاں بھی جانا تو آنکھوں میں خواب بھر لانا۔یہ کیا کہ دل کو ہمیشہ اداس کر لانا(احمد فراز)۔اس شہر کے کسی گوشے میں چلے جانا اور واپسی پر اُداس دل کو بچوں کی مانند بہلا پھسلاکر واپس گھر تک لے آنا۔کیونکہ وہ نہیں آنا چاہتا۔ وہیں ان گلی کوچوں میں رہنا چاہتا ہے۔کیونکہ ”دل تو ہے دل کا اعتبار کیا کیجئے“ ہم کہتے ہیں ”اے دلِ ناداں اے دلِ ناداں ”پھر کہنا پڑتا ہے ”دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے“۔”کیونکہ دل توبچہ ہے جی“۔دل تو پاگل ہے۔ہم کہتے ہیں چٹکیاں مت کاٹ۔اے دل خموش ہو جا ”خموش اے دل بھری محفل میں چلانا نہیں اچھا“مگر دل بدتمیز ہونے لگتا ہے۔ کیونکہ یہ پرندہ لوٹ جانا چاہتا ہے۔پھر ہم سوچتے ہیں کہ ”دل ہی تو نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں۔“سو ہم خود ہی ناچار چپ او رہر بار چپ۔سو اسی طرح ہمارے پشوری بھائی آہستہ آہستہ شہر کو خالی کر رہے ہیں۔پھر روپے پیسے کی چکاچوند بھی تو اپنی جگہ ایک زبردست بڑھاوا ہے کہ بندہ اپنے ذاتی فائدے کے لئے مفت کے گھروں کو گراں ترین نرخوں پر بیچ باچ کر شہر کے باہر اس سے بڑاسا گھر اور بڑا سا کاروبار بھی ڈال لیتے ہیں۔کیونکہ کاروباری لحاظ سے شہر کے اندر زمین جائیداد گراں نرخوں پرموجودہیں۔مگر پھر وہی بات کہ جو شہر کے اندر کی گلیوں میں موجودہیں اگر شہر کو چھوڑنا نہیں چاہتے تو اپنے ہی چھوٹے گھر کو گرا کر اس میں تہہ خانہ نکال لیتے ہیں اور پھر نئے انداز سے اس میں منزلیں بھی زیادہ کر دیتے ہیں۔مگر یہ تو ہر دور میں ہوتا آیاہے۔ پھرایسا تو ہر دور میں ہوگا۔ مسئلہ ہمارا یہ ہے کہ ہمیں ان گلی کوچوں کی شناخت جو یاد ہے جو ماضی کی یادگار ہے۔ وہ شناخت مٹتی جا رہی ہے۔اب محلہ سیٹھیان کے بعض گھروں کی طرح شہر کے ہر گھر کو تو میوزم نہیں بنایا جاسکتا۔