وقت کرتاہے پرورش برسوں 

وطن عزیز میں گیس کی قلت تو اپنی جگہ ہے ہی اب اس کی قیمت میں عنقریب اضافہ کیا جا رہا ہے کیونکہ باہر سے مہنگی گیس خرید کر اسے سستے دام ملکی صارفین کو سپلا ئی کرنا ممکن ہی نہیں۔اگر گیس کی قیمتوں میں اضافہ نہیں ہوگا تو اس عمل سے ہمارے سالانہ بجٹ پر منفی اثر پڑتا ہے۔تاہم دیکھاجائے تو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گیس کے ذخائر میں کمی واقع ہوتی جارہی ہے اور یہ عمل مسلسل جاری ہے، یعنی یہ جو گیس کی کمی سامنے آرہی ہے یہ کوئی راتوں رات ہونے والی بات نہیں۔ 
  کسی شاعر نے بالکل بجا کہا ہے کہ 
وقت کرتا ہے پرورش برسوں.....حادثہ ایک دم نہیں ہوتا....وطن عزیز کی یہ بد قسمتی یہ ہے کہ ہمارے ہاں توانائی کے نت نئے ذرائع سے استفادہ کرنے کی طرف کم ہی توجہ دی گئی ہے۔ گیس کے ذخائر جو کئی دہائیاں قبل دریافت ہوئے ہیں ان سے ہی استفادہ کیا جارہا ہے جبکہ گیس استعمال کرنے والی آبادی میں کئی گنا اضافہ ہو ا ہے جس سے گیس ذخائر پربوجھ بڑھا ہے۔ اس سستی اور غفلت کا خمیازہ آج پوری قوم بھگت رہی ہے۔ اسی طرح دیگر کئی اہم قومی امور میں بھی غفلت کا مظاہرہ کیا گیا زراعت کی طرف خاطر خواہ توجہ نہ دینے کی وجہ سے آج پاکستان جیسا زرعی ملک بھی گندم اور چاول باہر سے درآمد کر رہا ہے حالانکہ ہم وافر مقدار میں گندم اور چاول پیدا کر کے انہیں دنیا بھر میں برآمد کر سکتے تھے۔ اسی طرح ملک میں زرعی اصلاحات کی طرف کسی نے بھی صدق دل سے کوئی توجہ نہیں دی۔اب کچھ دیگر امو رکا تذکرہ ہوجائے۔آبادی اور وسائل کے درمیان خاص تناسب کو برقرار رکھنے کے حوالے سے ہمیں چین کے تجربات سے سیکھنا چاہئے جہاں زراعت کو جدید خطوط پر اس طرح استوار کیا گیا ہے کہ تھوڑی زمین سے زیادہ پیداوار کا حصول ممکن بنایا گیا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ چین کی دو ر اندیش قیادت میں یہ صلاحیت تھی کہ انہوں نے آنے والے وقتوں کی مشکلات کااندازہ لگاتے ہوئے منصوبہ بندی کی جس پر عمل پیرا ہوتے ہوئے آج چین سپر پاور ہے۔ مسئلہ سر پر آجائے تو ایسے میں حل ڈھونڈنے کی بجائے اچھی پالیسی یہی ہے کہ پہلے سے منصوبہ بندی کی جائے اور کسی بھی بحران کو گھمبیر اور شدید ہونے سے پہلے ہی ٹالا جائے۔ اب اگر بات کی جائے عالمی منظر نامے کی تو وہاں پر حالات کشیدہ ہیں اور یوکرین جنگ ختم ہونے کی بجائے اس کادائرہ وسیع ہونے کا خطرہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتا جارہا ہے۔ برطانیہ اور جرمنی نے یہ جو روس کا مقابلہ کرنے کیلئے یوکرین کو مضبوط کرنے میں لگے ہیں اور اب یہ دونوں ممالک  یوکرین کو ٹینک بھی فراہم کرنے لگے ہیں تو اس کا نتیجہ یہی نکلے گا کہ یوکرین میں ان ممالک کے مفادات پر اگر ضرب لگے تو یقینا اس سے جنگ کے شعلے مزید بھڑک اٹھیں گے۔یہ اب ایک طے شدہ امر ہے کہ یوکرین جنگ نے اس سال بھی پوری دنیا کے امن کو متاثر کرنا ہے اور اسکے اثرات سے دنیا کاکوئی بھی ملک محفوظ نہیں رہے گا۔