مسلمہ حقیقت ہے کہ کوئی بھی ملک اپنے ہمسائے تبدیل نہیں کر سکتا اور یہی وجہ ہے کہ ہمسایہ ممالک سے ہم آہنگی کی کوششیں ایک پیمانے کے طور پر دیکھی جاتی ہیں اور اِسی کسوٹی پر سفارتی و تجارتی کامیابیوں کا وزن بھی کیا جاتا ہے۔ عالمی اصول ہے کہ تشدد کی راہ اختیار کرنے کی بجائے ممالک آپسی تنازعات بات چیت کے ذریعے حل کرتے ہیں۔ اِس تناظر میں اگر پاک بھارت تعلقات ماضی و حال (تاریخ) دیکھی جائے تو بھارت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے کامیابیوں پر ناکامیاں حاوی دکھائی دیتی ہیں۔ اِس پورے منظر نامے میں حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو ’مذاکرات کی میز پر بیٹھنے اور کشمیر جیسے دیرینہ مسائل کے حل کے لئے سنجیدہ اور مخلصانہ بات چیت کرنے‘ کی مشروط پیشکش کی گئی ہے جس کے پیچھے یہی سوچ کارفرما ہے کہ تنازعات کی بجائے دونوں ہمسایہ ممالک باہمی امن و بھائی چارے سے رہیں اور اپنے زیادہ سے زیادہ وسائل عوام کی بہبود پر خرچ کریں۔ ”العربیہ“ ٹیلی ویژن کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ ”متحدہ عرب امارات مذاکرات میں سہولت فراہم کرسکتا ہے‘وزیر اعظم شہباز شریف کی بھارت کو مذاکرات کی دعوت پہلی بار نہیں دی جا رہی بلکہ پاکستان نے بھارت کو ایک مرتبہ پھر امن کا پیغام دیا ہے۔ بھارت کی جانب سے کشمیر میں تقریبا ًروزانہ کی بنیاد پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں عالمی برادری کے لئے باعث تشویش ہونی چاہئیں۔ بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت مقبوضہ کشمیر کے عوام کو محدود خودمختاری دی گئی جسے واپس لے لیا گیا ہے۔ بھارت میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں پر ظلم و ستم معمول بن چکا ہے اور حکومت ہند کی جانب سے اس بات کا کوئی اشارہ نہیں مل رہا کہ وہ پاکستان کے ساتھ کسی بھی سطح پر معنی خیز (سنجیدہ) مذاکرات کے لئے تیار ہے۔ پاکستان نے بارہا اس بات کا بھی اعادہ کیا ہے کہ وہ ایک پرامن ہمسایہ ملک کا کردار ادا کرنے کا خواہاں ہے جہاں کسی بڑے ہمسایہ ملک کی طرف سے جارحیت کا خطرہ نہ ہو۔ ایک ایسی دنیا میں جہاں معیشت دیگر ترجیحات سے بالاتر ہو۔ دونوں ممالک کے درمیان تجارت کے وسیع امکانات موجود ہیں لیکن بھارت کی کشمیر پالیسی یعنی بھارت کی جانب سے کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں ہو سکا ہے۔ اِن مشکل حالات میں وزیر اعظم شہباز شریف کی مذاکرات کی مشروط پیشکش بہت اہم ہے لیکن یہ سب اس بات پر منحصر ہے کہ بھارت پاکستان کی اِس پیشکش کا کس طرح جواب دیتا ہے اور وہ کشمیر کی پرانی حیثیت کو بحال کرنے کے ساتھ ساتھ وہاں پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کاسلسلہ کب ترک کرتا ہے۔