محلے کا وٹس ایپ گروپ

خیرخواہی کے جتنے ادارے ہو ں کم ہوں گے۔کیونکہ انسانیت کے دکھ بہت زیادہ ہیں۔ہر محلے میں اس قسم کے مدد گار نوجوانوں کا ایک وٹس ایپ گروپ ہو جو علاقے کے لوگوں کی ہر مشکل میں ان کا ساتھ دے۔ہر علاقے کی بعض ضرورتیں دوسرے علاقوں سے مختلف ہوتی ہیں۔ایک وٹس گروپ والوں نے چندہ جمع کر کے ایک معذورہونے والے شخص کے گھرمیں کھانے پینے کا سامان پہنچایااور ساتھ ہی قبر کھودنے کے لئے بیلچے وغیرہ خرید لئے۔ جب کسی کا انتقال ہو تو یہ لوگ سامنے آتے ہیں اوربغیر معاوضہ کے جا کر قبر کھودتے ہیں۔مجھے ان اداروں کی تعریف کرنا ہے جو دکھی انسانیت کی خدمت میں مصروف ہیں۔ان شخصیات کوسراہنا ہے جو معاشرے میں پھیل کر انسانوں کے کام آرہے ہیں۔ جن میں ادارے تو اعلانیہ یہ خدمت سرانجام دے رہے ہیں اور مخیر حضرات خفیہ طور پر اس فریضہ کی انجام دہی میں کوشاں ہیں۔اداروں کے ناموں کا تذکرہ اس لئے نہیں کہ ان کو سب جانتے ہیں۔ پھر یہاں الفاظ کی اتنی گنجائش بھی نہیں کہ سب کا احاطہ کیا جائے۔پھر شخصیات جو اپنے ناموں کو خفیہ رکھنا چاہتی ہیں تو کیا ضرورت کہ ان کے اسماء کونمایاں کر کے پیش کیاجائے۔فلاحی تنظیمیں بہت سی ہیں مختلف ناموں سے ہیں۔گلی محلوں میں آج کل نوجوانوں نے وٹس ایپ گروپ بنا رکھے ہیں۔علاقے میں کوئی نادار بندہ ہو یا بیمار ہو ایک دوسرے کو اس کے بارے میں آگاہی دلواتے ہیں۔پھرکسی نہ کسی طریقے سے یہ لوگ علاقے کے کسی دکاندارکے پاس رقم جمع کرواتے ہیں۔پھر جمع شدہ رقم اس ضرورت مند کی احتیاج پورا کرنے کے لئے اس کے گھر تک جا کر دروازے میں دے آتے ہیں۔جدید سائنسی سہولیات سے فائدہ اٹھانااس کو کہا جاتا ہے۔وہ اپنی اپنی رقم ایزی پیسا قسم کے موبائل ایپ پر ایک اکاؤنٹ میں منتقل کر دیتے ہیں۔پھر وہاں سے کسی ایک بندے کو اختیار ہے کہ وہ رقم نکلوا کر متعلقہ بے کس انسان کی مدد کے لئے اس کے حوالے کر آئے۔یہاں غربت بہت ہے۔ہر گلی محلے میں وہ لوگ مقیم ہیں جن کا زندگی کی ضرورتوں پر بس نہیں چلتا۔ کسی گلی میں نادار اور پھر بیمار ہمسایہ ہو تو اس کے بارے میں کسی کو اطلاع نہیں ہو پاتی۔مگر وٹس ایپ گروپ والے ایک دوسرے کی اطلاعات لاتے ہیں اور انھیں ہر طرح سے کوشش کر کے مدد فراہم کرتے ہیں۔کسی کے گھر میں راشن ڈال دیتے ہیں اور کسی کو نقد امداد دے کر اس کو ہسپتال تک جانے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔انسانیت کے دکھ زیادہ ہیں جو کم ہونے میں نہیں آرہے۔ حالات ہی اس قسم کے ہیں ہمارے ہاں غریبوں کی تعداد میں بہت اضافہ ہو رہا ہے۔مگر ایسے ادارے جو غربت زدہ عوام کی خدمت میں جُتے ہوئے ہیں وہ عرصہ تیس سال سے مختلف شہروں میں روزانہ کی بنیاد پر دوپہر اور شام کو اپنا دستر خوان سڑک کے بیچ گرین بیلٹ پر سجاتے ہیں۔ان بے نواؤں کو کھانا دیتے ہیں جن کا زندگی پر زور نہیں چلتا۔ بڑے شہروں میں جہاں کارخانے بہت زیادہ ہیں اور آبادی کا گراف بہت اوپر ہے وہاں تو اس دستر خوان کو غریب لوگ عرصہ دراز سے جانتے ہیں۔ وہ ان دسترخوان سے اپنے حصے کا جو بھی ہو جا کر پیٹ پوجا کر آتے ہیں۔پھر ان اداروں کو رقم جہاں سے آتی ہے اورجو نیک انسان یہ دسترخوان سجاتا ہے اس کے ادارے کو شہر کی مالدار شخصیات خفیہ طور پر مالی مدد فراہم کرتی ہیں۔ جس کی وجہ سے یہ ادارہ اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے۔پھر ایک نہیں بہت سے ادارے ہیں۔بلکہ جتنے زیادہ ہو ں اتنے کم پڑیں گے۔کیونکہ ہمارے ہاں غریبوں کی تعداد میں روز گئے بہت اضافہ ہو رہا ہے۔نہر کنارے جو مزدور روز صبح آکر بیٹھ جاتے ہیں ان کو اگر کام نہ مل سکے تو پاس کے کباب بیچنے والے ان کو دوپہر کے وقت ایک چپلی کباب اور ایک روٹی فراہم کرتے ہیں۔ میں نے اس دکاندار سے اس بارے میں حقیقت جاننا چاہی۔اس نے جواب دیا کہ ہمارے والد مرحوم کی نصیحت تھی کہ جو کام میرے جیتے جی ہو رہا ہے اس کو میرے بعدبھی جاری رکھنا ہے۔سو ہم اس نیک کام کو ابھی تک بند نہیں کر پائے۔ اس دکاندارکو بھی شہر کے رہنے والے جا کر پیسے دے آتے ہیں کہ ہماری طرف سے ان مزدوروں کو کھانا کھلا دیں۔ بلکہ موسمِ گرما کے دنوں میں بعض دکانوں کے باہر ٹھنڈے پانی کے بڑے حمام رکھے ہوتے ہیں۔ جن میں روز برف ڈالی جاتی ہے۔بعض نیک بخت نوجوانوں نے راشن بانٹنے کی کوشش کی ہے تو ان کو اہلِ محلہ یا دیگر لوگ چندا دیتے ہیں۔ان میں سے کوئی ایک راشن کی گھٹری اٹھا کر محلے کے کسی گھر میں دے کر آجاتا ہے۔اگر ہمارے ہاں اس قسم کے نیک کام تواتر سے ہوں تو اس کے بہت مثبت اثرات سامنے آئیں گے۔