آکسفیم رپورٹ

آکسفیم نامی عالمی تنظیم کی حالیہ رپورٹ جو ’ڈیووس 2023ء‘ کے دوران جاری کی گئی‘ میں عالمی رہنماؤں سے کہا گیا ہے کہ وہ دنیا میں بڑھتی پھلتی پھولتی ’عدم مساوات‘ کے وبا کے بارے میں کچھ کریں ۔ آکسفیم کے جاری کردہ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح دنیا کے امیر ترین افراد نے گزشتہ دس برس میں اپنی دولت کو دوگنا کیا ہے ۔ امیر ترین افراد کی بقا نامی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ امیر ترین ایک فیصد افراد نے نچلے طبقے کے مقابلے میں 74 گنا زیادہ دولت جمع کی ہے جبکہ اِس سرمایہ دارانہ نظام کی بدولت دنیا کے کئی ممالک بشمول بعض ترقی یافتہ ممالک کو بھی بحرانوں کا سامنا ہے ۔ دولت کی حرص کے باعث دنیا عذاب جیسی صورتحال کا سامنا کر رہی کہ ایسی قو میں بھی ہیں جن کے پاس خوراک کی کمی ہے اور وہ سرمایہ دار ممالک کے مقروض ہونے کی وجہ سے اپنی قومی ترجیحات کا تعین بھی خود نہیں کر سکتے ۔ انسانوں کے ہاتھوں انسانوں نے اپنی حفاظت اور غذائی تحفظ کی صلاحیت کھو دی ہے! ’’آزاد منڈی‘‘ اور ’’آزاد معیشت‘‘ کے تصور نے دنیا بھر میں آگ لگا رکھی ہے ۔ اِن پالیسیوں کی وجہ سے ارب پتی افراد کے عروج نے غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور لوگوں پر تباہ کن اثرات مرتب کئے ہیں ۔ آکسفیم کی رپورٹ چشم کشا ہے جس میں یہ تجویز کیا گیا ہے کہ سال 2030ء تک ارب پتی افراد کی تعداد میں نصف کمی کی جائے جس کے لئے متعدد ارب پتیوں کو ختم کرنے کی پالیسیاں اپنائی جائیں اُن سے زیادہ شرح سے ٹیکس وصول کئے جائیں ۔ امریکہ میں ارب پتی افراد شاید ہی کوئی ٹیکس ادا کرتے ہیں اور یہی صورتحال اِس نظام کو اپنانے والے دیگر ممالک کی ہے ۔ پاکستان میں حالیہ سیلاب نے لاکھوں افراد کو خط غربت سے نیچے دھکیل دیا ہے جبکہ ہزاروں ہی کی تعداد میں لوگ بے گھر ہو گئے ہیں ۔ اِس سے قبل دوہزارپانچ کے زلزلے کے متاثرین کی بھی حسب وعدہ مکمل بحالی نہیں کی گئی ۔ ایک طرف وبائی امراض تو دوسری طرف روس یوکرین جنگ کی وجہ سے پیدا ہونے والے عالمی معاشی بحران کے اثرات پاکستان پر بھی مرتب ہوئے ہیں جن سے ظاہر ہے کہ دنیا کے مالیاتی و معاشی نظام کو دوبارہ ترتیب دینے کی ضرورت ہے اور اِس سلسلے میں دولت کی منصفانہ تقسیم ہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے ۔ حکومت ویلتھ ٹیکس کے ذریعے جمع ہونے والی آمدنی کو سماجی بہبود کے پروگراموں پر خرچ کر سکتی ہے اور ایسا ہونا بھی چاہئے ۔ ! ڈیووس سمٹ سرمایہ داروں کا اجلاس ہوتا ہے اور اس موقع پر جاری ہونے والی آکسفیم رپورٹ اُن سبھی لوگوں کے ضمیر پر دستک ہے جو دنیا کی شدید مالی تقسیم کے لئے ذمہ دار ہیں ۔ عالمی اشرافیہ نے ایک بین الاقوامی کلب تشکیل دے رکھا ہے جہاں وہ خود کو قوانین و قواعد سے بالاتر رکھنے اور اپنے مفادات کو لاحق خطرات کے بارے میں بیٹھ کر سوچتے ہیں اور ایک مشترکہ لاءحہ عمل تشکیل دیتے ہیں ۔ سرمایہ دارانہ نظام کسی ایک ملک کا نہیں بلکہ ’’عالمی مسئلہ‘‘ ہے اور اِس کا مقامی حل‘ عالمی حل کے تناظر میں ہونا چاہئے ۔ سرمایہ کاروں کے پاس سرمایے کا زیادہ ہونا کوئی غلط روش نہیں تاہم اس کے مقابلے میں وہ عوامی بہبود کے منصوبے کے لئے حکومت کو اگر مناسب ٹیکس ادا کریں تو یہ زیادہ بہتر ;200;پشن ہے اگر سرمایہ کار حصہ بقدر جثہ کردار ادا نہیں کرتے تو پھر اسے عدم مساوات کی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے جس سے امیر امیر تر اور غریب پہلے سے زیادہ غریب ہو جاتا ہے ۔