آج کی غالبا ًسب سے بڑی خبر یہ ہے کہ بھارت اب دنیا کا آ بادی کے لحاظ سے سب سے بڑا ملک بن گیا ہے اور اب اس کی آبادی ایک ارب پچاس کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے جو چین کی آبادی سے پچاس لاکھ زیادہ ہے۔ اتنی زیادہ آبادی بھارت کو کوئی معاشی مشکلات سے دوچار کر سکتی ہے کیونکہ وہ معاشی طور اس بات کا متحمل نہیں ہو سکتا کہ اتنی بڑی آبادی کے کیلئے تعلیم اور غذاءکا موثر انتظام کر سکے۔ رہی بات چین کی تو بھارت اور چین میں زمین و آسما ن کا فرق ہے ۔ چین کی قیادت جو ہد ف مقررکرے تو اس کے حصول کیلئے پوری قوم دن رات محنت کرنے لگتی ہے ۔بھارت میں معاملہ الگ ہے وہاں پر تو ذات پات کے معاشرے میں تعلیم بھی ایک خاص طبقے تک محدود ہے اور دیگر مراعات بھی۔ یہ خبر خوش آئند ہے کہ روس کے ساتھ تیل کی خریداری کے سلسلے میں مذاکرات کا پہلا دور کامیاب رہا ہے اورہو سکتا ہے اس کالم کے چھپنے تک اس ضمن میں معاہدے طے پا جائیں پر اس سلسلے میںہمیں ملک کے اندر گیس اور توانائی کے ذخیروں کی تلاش کی طرف پوری توجہ بھی دینا ہو گی اور بجلی پیدا کرنے کے غیر روایتی طریقوں جیسا کہ سولر اور ونڈ انرجی کو ملک میں متعارف کرانا بھی ضروری ہے۔اب ایک اور اہم معاملے کی طرف آتے ہیں‘انتخابات کا ماحول ایک با رپھر بننے والا ہے اور چاہے یہ ضمنی الیکشنز ہوں یا پھر جنرل ،دونوں کیلئے ایسے انتظامات کی ضرورت ہے کہ ہارنے والے دھاندلی کا رونا نہ روئیں بلکہ جیتنے اور ہارنے والے دونوںنتائج کو تسلیم کریں۔ہمیشہ سے ایسا ہوتا آ یا ہے کہ الیکشن میں ہارنے والی سیاسی پارٹی دھاندلی دھاندلی کی رٹ لگا کر اپنے ورکرز کو لے کر سڑکوں پر نکل آ تی ہے اگر اب کی دفعہ بھی ایساہو گیا تو اس کا ہمارے تمام سٹیک ہولڈرز نے کیا حل نکالا ہے اس لئے سیانے یہ کہتے ہیں کہ الیکشن سے پیشتر تمام سٹیک ہولڈرز کو اس قسم کے سوالات کے خاطر خواہ جوابات دینے ضروری ہیں اس سلسلے میں تازہ ترین مردم شماری اور اتفاق رائے سے کی جانے والی حلقہ بندیوں کی بھی کیا ضرورت نہیں ہے؟ایک اور توجہ طلب خبر یہ ہے کہ ایشیائی ترقیاتی بینک کا کہناہے کہ پاکستان سمیت وسطی ایشیائی علاقائی ممالک میں توانائی کی ضروریات 2030 تک 30 فیصد بڑھ جائیگی۔چین کے علاوہ ان ممالک میں بجلی کے ترسیلی ڈھانچہ کوبہتربنانے کیلئے 25 سے لیکر49 ارب ڈالرتک کی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے اور خطے میں موسمیاتی تبدیلیوں کے بڑھتے ہوئے اثرات کے تناظرمیں ان ممالک کو اپنے کاربن کے اخراج میں نمایاں کمی کرنی چاہئے اور صاف اور قابل تجدید توانائی کے ذرائع کی طرف منتقلی کو تیز کرنا چاہئے۔اس حوالے سے ایشیائی ترقیاتی بینک کی جانب سے جاری کردہ کاریک آﺅٹ لک رپورٹ 2030 میں بتایاگیاہے کہ بڑھتی ہوئی معیشتوں اور آبادی کے ساتھ، وسطی ایشیا اورعلاقائی ممالک کو اپنی ترقی کے لیے مزید توانائی کی ضرورت ہے۔خطے میں موسمیاتی تبدیلیوں کے بڑھتے ہوئے اثرات کے تناظرمیں ان ممالک کو اپنے کاربن کے اخراج میں نمایاں کمی کرنی چاہئے اور صاف اور قابل تجدید توانائی کے ذرائع کی طرف منتقلی کو تیز کرنا چاہئے۔رپورٹ میں وسطی ایشیا اور قفقاز کے ساتھ ساتھ ہمسایہ ملک منگولیا، پاکستان اور عوامی جمہوریہ چین کی معیشتوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔اس رپورٹ کے تناظر میں پاکستان کو خاص طور پر توانائی کے نئے ذرائع تلاش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ آنے والے وقتوں میں توانائی بحران پھر سر اٹھائے اگرچہ اس وقت بھی گیس اور بجلی کی قلت کا سامنا ہے تاہم یہ سلسلہ آنے والے وقتوں میں زیادہ ہو سکتا ہے جس سے ترقی کا سفر بری طرح متاثر ہوگا کیونکہ توانائی کے ذرائع کا استعمال ہی کسی بھی ملک کی ترقی و خوشحالی کا اہم عنصر ہے۔
اشتہار
مقبول خبریں
پشاور کے پرانے اخبارات اور صحافی
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سٹریٹ کرائمز کے تدارک کی ضرورت
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
فرسودہ فائر بریگیڈ سسٹم
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
معیشت کی بحالی کے آثار
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
امریکہ کی سیاسی پارٹیاں
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
ممنوعہ بور کے اسلحہ سے گلو خلاصی
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سعودی عرب کی پاکستان میں سرمایہ کاری
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
امریکی پالیسی میں تبدیلی؟
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سموگ کا غلبہ
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سابقہ فاٹا زمینی حقائق کے تناظر میں
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ