پاکستان کا موسمیاتی تبدیلیوں کے اسباب میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے لیکن اس کے باوجود اس نے سیلاب جیسی آفات کی تباہ کاریوں کی صورت میں بھاری قیمت ادا کی ہے ، یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے جس سے مشترکہ کوششوں کے ذریعے نمٹنا ہوگا۔ ڈیووس میں عالمی اقتصادی فورم کے موقع پر پاکستان کے حوالے سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلی سینیٹر شیری رحمان کا کہنا تھا کہ اس وقت دنیا کو موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ایک بہت بڑے چیلنج کا سامنا ہے جبکہ پاکستان اس سے شدید متاثر ہے۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ سیلاب اور اس کے نتیجے میں ہونے والی تباہ کاریاں اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات بہت سنگین نوعیت کے ہیں ۔ پاکستان میں سیلاب سے 33 ملین لوگ متاثر ہوئے، بہت سے علاقے زیر آب ہونے کی وجہ سے 8 ملین افراد اب بھی متاثر ہیں، آبادیوں اور انفراسٹرکچر کو شدید نقصان پہنچا، سیلاب سے متاثرہ آبادی کا حجم تین درمیانے سائز کے یورپی ممالک کی آبادی سے زیادہ ہے کیونکہ یہ صدی کا ریکارڈ سیلاب تھا۔ شیری رحمان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے خود متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور سیلاب کی تباہ کاریوں کا مشاہدہ کیا، ہم اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے شکر گزار ہیں جنہوں نے سیلاب متاثرین کی مشکلات کو محسوس کرتے ہوئے پاکستان کے لئے عالمی مدد اور حمایت کے حصول کے لئے جنیوا کانفرنس کی مشترکہ میزبانی کی َشیری رحمان کا کہنا تھا کہ ہمارے لئے تشویش کا معاملہ یہ ہے کہ ایسی صورتحال آئندہ بھی پیدا ہوسکتی ہے ، اس لئے ہم متاثرہ علاقوں میں بحالی و تعمیر نو کے ساتھ ساتھ موسمیاتی تبدیلیوں سے موافقت پیدا کرنے اور ملک کو کلائمیٹ ریزیلیئنٹ بنانے کے لئے بھی کوشاں ہیں، اس سلسلے میں قابل تجدید توانائی کے ذرائع کو فروغ دینے سمیت مختلف اقدامات کئے جا رہے ہیں تاہم اس مقصد کے لئے عالمی تعاون سے مشترکہ کوششیں ہی سود مند ثابت ہو سکتی ہیں ۔اِس سال کی عالمی اقتصادی فورم کی میٹنگ کا موضوع ایک منتشر دنیامیں تعاون ہے عالمی اقتصادی فورم کی میٹنگ میں ماہرین، سرمایہ کار، سیاسی اور کاروباری رہنماﺅں کے علاوہ ماہرین تعلیم شرکت کررہے ہیں ، جس میں روس،یوکرین بحران، عالمی سطح پر بڑھتاہوا افراطِ زر ، آب و ہوا میں تبدیلی اور اختراعی حل کو فروغ دینے جیسے اہم مسائل پرجو دنیا کو درپیش ہیں، عالمی اقتصادی فورم کی سالانہ میٹنگ پر عالمی اقتصادی فورم کے بانی اور ایگزیکٹو چیئرمین کلاس سچواب نے کہا کہ وہ اِس بات کو محسوس کررہے ہیں کہ سیاسی، معاشی اور سماجی قوتیں ایک عالمی اور قومی سطح پر انتشار پیدا کررہی ہیں۔ ختم ہوتے ہوئے اِس اعتماد کی اصل وجوہات سے نمٹنے کیلئے حکومت اور کاروباریشعبوں کے درمیان تعاون بڑھانے کی ضرورت ہے۔ کلاس سچواب نے مزید کہا کہ اِس کے ساتھ ساتھ اقتصادی ترقی کے لئے زیادہ لچکدار اور زیادہ پائیدار کوششوں کی ضرورت ہے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ کوئی بھی پیچھے نہ رہ جائے۔ خیال رہے کہ آئی ایم ایف کی ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا نے پیش گوئی کی ہے کہ رواں سال کے آخر تک عالمی اقتصادی ترقی کی بحالی شروع ہو جائے گی۔ عالمی ترقی میں تنزلی کا خاتمہ ہو سکنے کا ذکر کرنے والی جارجیوا نے اس امید کا اظہار کیا کہ اگلے سال اقتصادی ترقی میں تیزی آ سکتی ہے اور عالمی معیشت پر چھائے طوفان کے بادل جلد ہی ٹل سکتے ہیں۔ گزشتہ 3 برسوں کے دوران ملک کو درپیش کم از کم تیسرا معاشی بحران ہے۔ 2019 کا موسمِ بہار اور موسمِ گرما بھی ہمارے معاشی مستقبل کے حوالے سے غیر یقینی کا دور تھا اور سب کے ذہنوں میں یہ سوال تھا کہ آیا پاکستان آئی ایم ایف کے پاس جائے گا یا نہیں۔جولائی 2019 میں جب آئی ایم ایف نے پاکستان کےلئے 6 ارب ڈالر کا اعلان کیا تو ساتھ یہ بھی کہا کہ پاکستان کی معیشت ایک نازک موڑ پر تھی اور بہت زیادہ مالیاتی ضروریات اور کمزور اور غیر متوازن ترقی کی وجہ سے اہم اقتصادی چیلنجوں کا سامنا کر رہی تھی۔ واضح رہے کہ اعلان کردہ 6 ارب ڈالر کی 7ویں اور 8ویں قسط ہمیں اگست کے مہینے میں ملنی ہے۔ اس وقت کئی اقدامات اٹھائے گئے جن کے نتیجے میں استحکام بحال ہوا۔ جولائی 2019 کے آخر سے فروری 2020 کے آخر یعنی کورونا وبا کے آغاز سے بالکل پہلے تک روپے کی قدر میں 4 فیصد بہتری آئی اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر 154 روپے ہوگئی۔ اسی طرح اس دورانیے میں ملک کے کل ذخائر میں بھی 5 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا۔بعدازاں 2019 میں ادائیگیوں کے توازن کے بحران کے بعد جب دوبارہ معاشی استحکام حاصل ہوا تو ہمیں مارچ 2020 میں دوسرے بحران کا سامنا کرنا پڑا ۔ اس وقت آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹلینا جیورجیوا نے کورونا بحران کے حوالے سے کہا کہ ایک غیر معمولی عالمی بحران کے لیے ایک غیر معمولی عالمی ردِعمل کی ضرورت ہے۔ ہمارے قرضوں کی صورتحال اور مجموعی ذخائر کی سطح بھی آئی ایم ایف پروگرام سے قبل 2019 کے ادائیگیوں کے توازن کے بحران کے مقابلے کہیں بہتر ہے۔ جون 2019 کے اختتام پر ہمارے مجموعی ذخائر کم ہوکر 7 ارب ڈالر رہ گئے تھے، اس کے برعکس جون 2022 کے اختتام پر یہ ذخائر 10 ارب ڈالر تھے۔ سٹیٹ بینک کی فارورڈ لائبلیٹیز بشمول سواپس جو ذخائر کے ممکنہ قلیل مدتی اخراجات کا ایک پیمانہ ہیں ماضی میں 8 ارب ڈالر تھے جو اب 4 ارب ڈالرسے زیادہ ہیں درحقیقت ہمارے ریزرو بفرز کا معیار ماضی کے مقابلے میں تقریباً 7 ارب ڈالر بہتر ہے۔ 2019 کی پہلی ششماہی میں ہمارا اوسط ماہانہ کرنٹ اکاﺅنٹ خسارہ تقریبا ًاسی حد پر تھا جس پر آج ہے باوجود اس کے کہ آج تیل کی قیمتیں تقریبا ً40 ڈالر زیادہ ہیں۔ مزید یہ کہ ہمارا پبلک ڈیٹ جون 2022 میں جی ڈی پی کا 75 فیصد تھا جو 2 سال قبل جی ڈی پی کا 80 فیصد تھا۔ مارکیٹ کا کے ایس ای 100 انڈیکس جو بنیادی چیزوں کی بجائے جذبات اور دیگر چیزوں پر کام کرتا ہے کورونا کے دوران 27 ہزار پوائٹس تک گر گیا تھا لیکن آج تقریبا 40 ہزار پوائنٹس پر ہے۔ ہمارے معاشی مسائل جتنے گھمبیر نظر آتے ہیں حقیقت میں اتنے گھمبیر ہیں نہیں۔ مزید یہ کہ پاکستان کے ڈیفالٹ کا کوئی خطرہ نہیں ۔