یونکہ ان کو گھروں سے تربیت نہیں ملی ہوتی ۔ ہمارے ہاں زیادہ تر ایسا ہی ہوتا ہے ۔یہ لوگ سڑک پر جاتی ہوئی گاڑی کا شیشہ کھولتے ہیں ۔ پھر اندر سے فروٹ کے چھلکے باہر صاف ستھری سڑک پر پھینک دیتے ہیں۔ان کے لئے آپ ایک کے اوپر ہزار بھی ایک سو ایک موٹر وے بھی بنا لیں۔ مگر یہ گاڑی کے اندر فروٹ کھا کر اس کے چھلکوں کا شاپر لازمی طور پر شیشہ اُتار کر کھڑکی کے باہر پھینک دیں گے۔ جب گھر سے بندہ تربیت یافتہ نہ ہو تو وہ باہر بھی کہیں تہذیب کا مظاہرہ نہیں کرتا۔بلکہ اس کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ہمیں کس موقع پر کیا کرنا ہے۔ یہ تو اس کو دوسرے دیکھنے والے لوگ بتلائیں تو بتلائیں وگرنہ ان کو تو خود احساس تک ہونے نہیں پا تا کہ ہم یہ کیا غلط کام کر رہے ہیں ۔وہ اپنے حساب سے سمجھتے ہیں کہ ہم تو درست کر رہے ہیں اور یہی عمل جو ہم نے کیا یہی ٹھیک ہے ۔مگر وہاں کے مغربی تہذیب یافتہ معاشروں میں ایسا نہیں ہوتا۔ کوڑے کے ڈبوں میں ڈالیں گے۔خواہ بچہ ہو یا بوڑھا انسان ہو سب کے سب کو تربیت حاصل ہو تی ہے کہ وہ اپنی خوراک کی چیزوں کے رنگین کاغذ اور کچرا قریب کی پڑی ہوئی باسکٹوں میں پھینکیں گے۔پھر یہ بھی ہے کہ ہمارے ہا ں اول تو گند کی باسکٹیں یوںسرِ عام نہیں پڑی ہوتیں۔ کوڑے کے لوہے کے ڈرم اگر پڑے ہوں تو ان کے اندر کم اور باہر زیادہ کچرا پڑ اہوگا۔ باہر کے ممالک میں تو اتنی صاف ستھری جگہیں ہوتی ہیں کہ ان کی صفائی ستھرائی دیکھ کر ہمارے ہاں سے گئے ہوئے بعض گاڑی والوں کی جو اپنے ہاں شیشہ اتار کر گند سڑک پرپھینک دیتے تھے ہمت تک نہیں ہوتی کہ وہ شاپر کو سڑک پر پھینک دیں۔ یہ تو جب ماحول صاف ستھرا ہوگا تو اگلا کچرا پھینکتے ہوئے شرمائے گا۔ لیکن جگہ جگہ گند پڑا ہو تو پھر ہمت تو کیا اگلے کو شاباشی ملے گی جو یہا ںاپناگند بھی دوسرے کچرے کے ساتھ جمع کر دے۔ایک جگہ دیکھا کہ جاتا ہوا موٹر سائیکل موڑ کاٹتے ہوئے دھڑام سے گر پڑا ۔راہ گزرتے ہوئے لوگ دوڑ پڑے بائیک سوار کواٹھایا ۔وہ حیران تھا کہ میں گرا بھی کیسے اور کیونکرگرا ۔کیونکہ راستہ بھی سنسان تھا اور نہ کوئی درمیان تھا۔ مگر یہ حادثہ ہوا بھی تو کیسے ۔وہ زمین پر کچھ تلاش کر رہا تھا ۔شاید اس کی جیب سے کوئی چابی وغیرہ گر گئی تھی۔ مگر ایک دم سے وہ نیچے ہوا او رغور سے دیکھا پھر اس نے پا¶ں سے کھینچ کھینچ کر کوئی گری ہوئی چیز سڑک سے ہٹا کر ایک طرف کر لی ۔کہنے لگا چھلکا تھا چھلکا۔کیلے کا چھلکا۔یہ وہی چھلکا تھا جس پر سے اس کے بائیک کا اگلا ٹائر پھسلا تھااور وہ زمین پر آ رہا ۔میں تو جہاں کہیں کیلے کا چھلکا زمین پرپڑا دیکھتا ہوں تو اگر میری پہنچ میں ہوبڑھ کر ایک طرف کر دیتا ہوں کہ کسی کو کوئی حادثہ پیش نہ آئے ۔اب ہمارے ہاں ہر سڑک پر فرلانگ بھر کے فاصلے پر کوڑے کی پلاسٹک کی باسکٹ کہاںسے آنے لگی ۔چونکہ میں نے کہیں بچپن میں کیلے کا چھلکا نام کا کوئی مضمون پڑھا تھا اس وجہ سے چونکہ میری بنیادی تعلیم میں وہ مضمون شامل تھا اس لئے میری فطرت کا حصہ بن گیا تھا کہ میں جہاں کہیں کیلے کا چھلکا دیکھوں اس کو وہاں سے ہٹا دوں۔ کیونکہ ایک اور مضمون بھی دیکھا تھا کہ ایک بوڑھے انسان کا وہا ںسے گزر ہواتو اس کا پا¶ں کیلے کے چھلکے پر سے پھسلا اور اس کی ثابت ٹانگ ہی ٹوٹ گئی تھی۔ اس قسم کے مسائل کو اگر بچوں کی تعلیم میں کسی مضمون میں شامل کر دیا جائے تو اس سے بہتوں کا بھلا ہوگا۔چونکہ وہ خوف جو میرے ذہن میں موجود تھا اس لئے مجھے اسی ڈر نے یہ تعلیم دی کہ میں وہ چھلکا اٹھا لوں ۔اس طرح کے عام مسائل ہو ں تو ان کو شاملِ نصاب کر دیاجائے تاکہ جو نسل اوپر کو آرہی ہے وہ کم ازکم کتاب سے تو سیکھ کر اوپر آئے۔کیونکہ عام طورسے ہم گھروں میں اس برائی کوخاطر میں نہیں لاتے ۔اگر کسی بچے نے ٹافی کا رنگین کاغذ ٹافی کھا کر زمین پر پھینک دیاتو ہم اس کوہدایت نہیں کرتے بلکہ اکثر اس کی اس دلربائی والی ادا پر صدقے قربان ہوتے ہیں۔اس پر فخر کرتے ہیں کہ وہ اس قابل ہوگیا ہے کہ ٹافی خودچھیل کر کھا سکے ۔مگر ایسا کرنے میں بالکل عاجز ہیں کہ اسے کہیں نہیں نہیں بیٹا ایسا نہیں کرتے۔ٹافی کھا کر اس کا چھلکا وہ سامنے جا کر باسکٹ میں پھینکتے ہیں ۔ہمارے ہاں اکثر اسی طریقے پر زندگی گزاری جا رہی ہے اس لئے ہمیں تواس بات کا خیال تک نہیں آتاکہ بچے نے وہ کام کیا ہے جو درست نہیں ہے۔