ایساکہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہوں جسے 

زندگی کے ہر شعبے میں اچھے اور قابل افراد کی کمی کبھی بھی نہیں ہوتی‘ پر ان میں معدودے چند افراد ہی ایسے ہوتے ہیں کہ جنہیں لیجنڈز کہا جا سکتا ہے‘آئیے آج اس کالم میں چند لیجنڈری افراد کا ہی تذکرہ ہو جائے اس ضمن میں ہم فلم انڈسٹری‘ موسیقی‘شاعری‘ گلوکاری گیمز‘ شاعری اور سیاست میں اپنے لئے بلند مقام حاصل کرنے والوں پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں گے‘فلم انڈسٹری میں ہالی ووڈ بالی ووڈ اور لالی ووڈ وہ تین ایسے مقامات ہیں کہ جنہوں نے گزشتہ ایک سو سال میں بعض ایسے لیجنڈری اداکار پیدا کئے کہ جن کا نام رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا کیونکہ ان کے پیشے میں ان کے بعد ان کا کوئی ثانی پیدا نہ ہو سکا برصغیر کی فلم انڈسٹری دنیا کی سب سے بڑی فلم انڈسٹری ہے کہ جس میں ماضی قریب میں ہر سال 500 کے قریب فلمیں بنا کرتی تھیں‘ برصغیر میں دلیپ کمار‘ پرتھوی راج‘سنتوش کمار راج کپور‘ دیوانند مدھوبالا‘نرگس اور مینا کماری جیسے اداکار اور اداکارائیں پیدا ہوئیں جنہیں بجا طور پر آپ لیجنڈری اداکاروں کا درجہ دے سکتے ہیں اسی طرح اگر ہم ہالی وڈ کا ذکر کریں تو فرینک سناٹرا لارنس‘آ لیور مارلن برانڈو‘ رچرڈ برٹن‘الزبتھ ٹیلر انگرڈ برگم اور ایوا گارڈنر لیجنڈری اداکاروں کی قطار میں کھڑے نظر آتے ہیں‘ موسیقی کے میدان میں جن موسیقاروں کو لیجنڈ کہا جا سکتا  ہے ان میں نوشاد علی‘خورشید انور سر فہرست ہیں‘گلوکاری کے شعبے میں اگر کسی کو لیجنڈ کا درجہ حاصل  ہے تو وہ ہیں استاد بڑے غلام علی خان‘مہدی حسن‘ ملکہ ترنم نور جہان‘ لتا منگیشکر محمد رفیع اور مکیش‘فلمی شاعری میں یہ مقام شکیل بدایونی شیلندرہ‘تنویر نقوی اور قتیل شفائی کو حاصل  ہے فلم انڈسٹری کے بعد اگر  ہم سپورٹس کا تذکرہ کریں تو  ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ سکواش میں  ہاشم خان  ہاکی میں د ھیان چند‘ فٹبال میں میراڈونا اور کرکٹ میں سر ڈانلڈ بریڈمین واقعی لیجنڈری کھلاڑی ہے اور ان گیمز میں  پائے کے کھلاڑی ان کے چلے جانے کے بعد دنیا نے پھر نہیں دیکھے‘ سیاست کے میدان میں بانی پاکستان قائد اعظم‘ برطانیہ کے وزیراعظم سر ونسٹن چرچل امریکہ کے صدر ابرا ہام لنکن اور نیلسن مینڈیلا اپنے اپنے وقتوں کے عظیم سیاسی ر ہنما گزرے ہیں جنہوں نے دنیا کی تاریخ پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔اب آئیے کچھ ذکر سیاست اور سیاستدانوں کا ہو جائے‘کسی دور میں گجرات کے چو ہدری برادران ملکی سیاست خصوصاً پنجاب میں ا ہم سیاسی رول ادا کیا کرتے تھے اور اس خاندان کے سربراہ کا کسی بھی معاملے میں فیصلہ حرف آ خر  ہوا کرتا تھا آج صورت حال یکسر بدل چکی  ہے‘ ہر کمالے را زوالے آج یہ سیاسی کنبہ اندرونی نفاق کا شکار نظر آتا  ہے اور اس کی نئی نسل اب اس کے سینئر ر ہنماؤں کی بات پر کان نہیں د ہرتی‘بیٹا باپ کی بات نہیں مان ر ہا تو چھوٹا بھائی بڑے بھائی کی‘اس جملہ معترضہ کے بعد چند ا ہم قومی اور عالمی سیاسی ایشوز کی طرف آتے ہیں‘اسلام آباد میں روس سے سستے تیل پر مذاکرات میں اب تک جو پیش رفت ہوئی ہے‘ وہ تسلی بخش قرار دی جا سکتی ہے‘اگر اس سلسلے میں پاکستان کو کامیابی ملتی ہے یہ قوم کے مفاد میں بہت بہتر ہوگئی‘کیوں کہ اس وقت پاکستان کے عوام جن معاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ان سے جان خلاصی کسی حد تک ممکن ہو جائے گی۔