افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے حکومت کا نقطہئ نظر کئی دہائیوں سے زیربحث ہے اور بنیادی سوال یہ ہے کہ آخر قومی فیصلہ سازی ملنے کے بعد ایک خاص سوچ کیوں ایسا کرتی ہے۔ اِس سوال کا جواب درحقیقت یہ پہلو بھی رکھتا ہے کہ ’کسی بھی ملک کا بنا تعلیم (خواندگی) مستقبل کیا ہوگا۔ افغان حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اسلامی نظام کے تحت حکومت کرنا چاہتے ہیں لیکن خواتین کے حقوق کے حوالے سے واضح اسلامی احکامات اور بہت سی مثالیں موجود ہیں جن میں اُنہیں تعلیم کا حق دیا گیا ہے اور یہ ریاستی ذمہ داری ہے کہ وہ خواتین کے لئے تعلیم کا بندوبست کرے اگر افغان حکومت کو ملک کے موجودہ یا مخلوط تعلیمی نظام کے حوالے سے تحفظات ہیں تو اُس کی اصلاح خواتین پر تعلیمی اداروں کے دروازے اور درسی و تدریسی مواقع ختم کرنا نہیں ہے بلکہ مرحلہ وار نظام کی اصلاح کرنا ہے تاکہ کسی بھی جنس کے لئے تعلیم کا سلسلہ نہ رکنے پائے۔ کئی اسلامی و غیراسلامی ممالک میں خواتین کے لئے درسگاہیں فعال ہیں‘ ایسے اسلامی ممالک بھی ہیں جن کا اقتدار مذہبی رہنماؤں کے ہاتھ میں ہے اور وہاں حکومت کی زیرنگرانی خواتین کے لئے تعلیم کی فراہمی کا بندوبست کیا گیا ہے لیکن افغانستان کی کہانی مختلف ہے جہاں نظریات کی نہیں بلکہ مخصوص ذہنیت کے حامل افراد کی رائے کو اہمیت دی جاتی ہے۔ توجہ طلب یہ بھی ہے کہ افغانستان اور پاکستان کے کچھ حصوں بالخصوص خیبر پختونخوا کے سرحدی اضلاع (ماضی کے قبائلی علاقہ جات) میں آج بھی قبائلی ثقافت کا غلبہ ہے اور یہاں بھی چند دہائیاں پہلے تک خواتین کی تعلیم یا اُن کی ملازمت کو نظر انداز کیا جاتا تھا۔ اپنی بچیوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے والوں کو مجبوراً قبائلی علاقوں سے نقل مکانی کرنا پڑتی تھی کیونکہ قبائلی ثقافت میں خواتین کی تعلیم کو ’غیراخلاقی‘ اقدام کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ اگر خواتین کو تعلیم و روزگار کے مواقع دیئے جائیں قبائلی ثقافت والے علاقوں میں موجود صرف غربت ہی نہیں بلکہ وباؤں کا خاتمہ بھی ممکن ہے جیسا کہ خواندگی نہ ہونے کی وجہ سے کم عمری میں شادیاں کرنے کا رجحان صرف افغانستان ہی نہیں بلکہ پاکستان کے کچھ حصوں میں بھی پایا جاتا ہے اور یہ وہی علاقے ہیں جہاں خواتین کو تعلیم حاصل کرنے سے محروم رکھا گیا ہے اور اِن علاقوں میں لڑکیوں کی شادی طے شدہ پیسوں (قیمت) کے عوض کر دی جاتی ہے! افغانستان کے موجودہ حکمرانوں کا تعلق پختون اکثریتی علاقوں سے ہے جو ملک کے دیگر نسلی و لسانی گروہوں پر جبراً اپنی سوچ مسلط کئے ہوئے ہیں۔ خواتین کی تعلیم سے متعلق انتہاپسند نظریات کی بڑی وجہ دینی اور جدید علوم کی تعلیم کے درمیان فرق بھی ہے۔ طالبان کے خیال میں جدید یعنی عصری علوم سے متعلق تعلیم و تربیت درحقیقت مغربی ثقافت مسلط کرنے کی کوشش ہے اور اِس جدید تعلیم کا درس و تدریس سے کوئی تعلق نہیں بلکہ وہ تعلیم کو دینی اور دنیاوی درجوں میں تقسیم کرتے ہیں جو ایک غلط تشریح ہے افغانستان کی موجودہ صورتحال میں ہزاروں کی تعداد میں طالبات نے جامعات (یونیورسٹیز) کی تعلیم چھوڑ دی ہے اور وہ یا تو جلاوطنی اختیار کر چکی ہیں یا جلاوطنی کی تیاریاں کر رہی ہیں۔ یہ منظرنامہ پاکستان کے نکتہئ نظر سے تشویشناک ہے کیونکہ اگر افغانستان میں عوام پر یک طرفہ و سخت گیر قوانین و قواعد لاگو کئے جائیں گے تو وہاں کے لوگ ہمسایہ ممالک کا رخ کریں گے جہاں بہتر معاش اور تعلیم و تربیت کے مواقع میسر ہیں۔ اعدادوشمار کے مطابق موجودہ افغان حکومت سے قبل‘ خانہ جنگی کے دور میں 37لاکھ سے زیادہ لڑکے لڑکیاں تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہے جبکہ موجودہ حکومت کے دور میں خواتین کی تعلیم پر پابندی عائد کرنے کے بعد سے 12 لاکھ طالبات کو تعلیم سے محروم کر دیا گیا ہے جبکہ افغانستان میں شرح خواندگی قریب چالیس فیصد ہے۔