ہمارے ہاں کا تعلیمی نظام کچھ عجیب سا ہے‘ہماری تعلیم کے نظام کے شیش محل کی بنیاد رٹے پر استوار ہے جو ایک کراس کوئسچن ایک چھوٹے سے سوال کے ساتھ چھناکے سے زمین بوس ہو سکتی ہے‘یہ رٹا ماری پہلی کلاس سے لے کر آخری کلاسوں تک رائج ہے‘جس کی وجہ سے آج تک ہمارے تعلیمی نظام کا قبلہ درست نہ ہوسکا جس نے جتنا اچھا رٹا لگایا ہوگا وہ اتنے ہی اچھے نمبر لے گا مگر اسے آتاجاتا کچھ نہ ہوگا کیونکہ اس نے سمجھ کر پڑھا نہیں ہوتا۔ اس نے اپنی میموری کو کام میں لا کر اس کا کباڑا نکال کر وہ کورس رٹ لیا ہوتا ہے جس کی وجہ سے اس کے نمبر تو اچھے آ جاتے ہیں اور اگلی کلاسوں میں اس کو داخلہ بھی مل جاتا ہے مگر جب وہ تعلیم سے فارغ ہو کر کسی مقابلے کے امتحان میں بیٹھے تو وہاں اس کے کردار کی ساری قلعی کھل جاتی ہے‘رٹالگا کر پڑھنے کی ایکسپائری ڈیٹ امتحان کے پرچوں کی تاریخوں تک ہوتی ہے‘وہاں پرچے ختم ہوئے یہاں ان کی میموری ختم ہو جاتی ہے پھر ان کو اس طرح بھول جاتا ہے کہ اگرکوئی بھولے سے یاد بھی کروائے تو یاد نہیں رہتا اس تعلیم سے کیافائدہ حاصل ہوگابعض طالب علم اس کام میں بہت ماہر ہوتے ہیں پھر وہ اپنی مہارت کے زور پرکامیاب بھی ہو جاتے ہیں مگر زندگی کے عملی میدان میں ناکام ہو جاتے ہیں کیونکہ ہر جگہ رٹا ماری کام نہیں آتی۔پرائمری کی کلاسوں میں رٹا ماری سے سبق پڑھائے جاتے ہیں پھر بچے یاد بھی کر لیتے ہیں‘پرائمری تک کی چار پانچ کلاسوں تک تو بچوں کا دماغ کام نہیں کرتا۔ان کے لئے گوٹا لگانا ہی بہتر ہو تا ہے مگر اگلی کلاسوں تک بچے کا ذہن کام شروع کر دیتا ہے۔اس کو اچھے برے کی تمیز کرنا خود بخود آجاتی ہے‘میراکسی کے گھر جانا ہوا تو وہاں میزبان نے کہا آپ میرے بچے کو دیکھیں اور ذرا اس کا سبق چیک کریں بلکہ ٹھہریں یہ خود آپ سے سوال کرے گا۔مجھے بہت خوشی ہوئی‘اس بچے نے ہاتھ میں کتاب تھام رکھی تھی‘ اس کے والد نے کہا بیٹا انکل کوپڑھاؤ‘ بچہ خاصا بولڈ تھااور شرم جھجک سے بہت دور تھا‘کہنے لگا چلو پڑھیں۔ننھی زبان سے پوچھنے لگا۔ یہ بتائیں کہ درخت کہاں اُگتے ہیں؟اس کا جواب تو بہت آسان ہے‘میں نے جواب دیا‘بیٹا درخت تو زمین میں اُگتے ہیں۔وہ فوراًبولا نہیں غلط بالکل غلط۔درخت مٹی میں اُگتے ہیں۔پھر پوچھا پاکستان کا قیام کب ہوا۔میں نے کہا 1947ء میں۔نہیں بالکل غلط چودہ اگست میں۔ اس سوال کے جواب میں جوباریکی ہے وہ رٹا ماری کی ایک روشن مثال ہے۔بچے کو درختوں کے اگنے اور زمین یامٹی کے بارے میں مزید تفصیلات سے آگاہی حاصل نہیں ہے‘ یہی مزید تفصیل سے لا علمی اور ایک خاص جواب کا یاد رکھنا اور یاد رہ جانا ہی رٹا ماری ہے۔اس رٹا ماری کی لائف انشورنس قلیل المیعاد ہوتی ہے ہمارے ہاں یہ سسٹم ہے‘ جو ہمیں اوپر جانے نہیں دیتا‘ہم دوسری اقوام کے شانہ بہ شانہ تو چل سکیں‘اگران سے آگے نہیں جاسکتے مگر ہمارے گوٹا مائیزیشن کے نظام نے ہمیں ذہنی طور پر مفلوج کر رکھاہے۔ہم کسی قابل نہیں رہے مگرہمارے ہاں سے جو لوگ مقابلے کا امتحان پاس کرتے ہیں اور اس کے علاوہ دوسرے شعبو ں میں نمایاں کامیابیاں سمیٹتے ہیں وہ رٹا بازی کے اثر میں نہیں ہوتے بلکہ میں کہوں رٹا لگانے والے بعض اعلیٰ امتحانوں میں بھی کامیاب ہوجاتے ہیں‘لیکن آگے چل کر وہ اس سسٹم کے لئے ناکارہ ہو تے ہیں‘ سو وہ کسی بھی میدان میں کامیاب ہو جائیں مگرچونکہ ان کی نرسری رٹا سسٹم سے آگے آئی ہوتی ہے اس لئے وہ اپنے ذہن کو کم ہی استعمال کرتے ہیں۔سو ان کادماغ دفتر یا کہیں بھی اگر ملازم ہو ں یا کام کررہے ہوں تو کرپشن کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔ہر بچے کی ذہنی صلاحیت بھرپور ہوتی ہے۔ مگر اس کااصل استاد اس کا ماحول ہوتا ہے جوگھرمیں بھی ملے گا اور سکول کالج میں بھی دستیاب ہوگا۔بچہ کند ذہن اور غبی نہیں ہوتا یہ سارا ماحول کا قصور ہے اگر اس کو اچھا ماحول ملا جہاں کتاب کا چلن عام ہوگا تو ا س کو پڑھانے کی بھی ضرورت نہیں رہے گی کیونکہ وہ اچھے ماحول کی وجہ سے اس قابل ہوگا کہ خود پڑھ سکے لیکن خود گھر ہی میں اگر اس کو گائیڈ کرنے والا نہ ہو تولازم ہے کہ وہ رٹے سے کام چلائے گا سکول کالج کے ہوتے سوتے ٹیوشن پڑھے گا آج کل تو علمی حوالے سے گوگل کی سروس باکمال ہے۔وہ کیا ہے جو یہاں موبائل میں درج نہیں ہے۔