صائب فیصلہ

اعظم خان صاحب کا بطور نگران وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا انتخاب ایک صائب فیصلہ ہے ان کا ایک لمبے عرصے تک بطور سول سرونٹ نہایت ہی اچھا کردار رہا ہے۔ وہ ایک دیانتدار اور شریف النفس انسان ثابت ہوئے ہیں اور ان کو خیبرپختونخوا کے انتظامی امور کا وسیع تجربہ بھی ہے۔ مقام شکر ہے کہ تمام سیاسی سٹیک ہولڈرز نے ان کی بطور وزیر اعلیٰ تقرری پر اتفاق کیا ہے۔ ھماری دانست میں اس منصب کے واسطے ان سے بہتر انتخاب نہیں ہو سکتا تھا۔اور اچھی خبر یہ ہے کہ روس کے ساتھ سستے خام تیل پٹرول ڈیزل اور گیس کی فراہمی کے سلسلے میں جو معاہدے طے پا گئے ہیں وہ نہایت اچھے اقدامات ہیں  اور ان سے دھیرے دھیرے ملک کو درپیش توانائی کے مسائل حل ہو جائیں گے پر ان اقدامات کے ساتھ ساتھ لازم ہو گا کہ حکومت توانائی کا مسئلہ حل کرنے کیلے ٹھوس اور دور رس نوعیت کے اقدامات اٹھائے جیسا کہ ڈیموں کی تعمیر اور سولر اور ونڈ فال اور دیگر بجلی پیدا کرنے کے غیر روایتی اقدامات بھی اٹھائے۔ اگر ایک طرف یوکرین جنگ کی طوالت کے پیش نظر جوہری جنگ کے شروع ہونے کا خدشہ پیدا ہو رہا ہے تو دوسری جانب فرانسیسی صدر کا دفاعی بجٹ433 ارب یورو تک بڑھانے کا اعلان  اس حقیقت کے غماز ہیں کہ سر دست اس جنگ کے بادل چھٹنے کے کوئی امکانات دکھائی نہیں دے رہے۔اس امر کا اقرار خود ایک امریکی جرنیل نے بھی کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق  امریکی فوج کے سربراہ جنرل مارک ملی نے جرمن رامسٹین ایئربیس پر ایک اجلاس کے بعد کہا کہ اس سال روسی فوج کو یوکرین سے نکالنا مشکل ہے۔جنرل مارک ملی کا کہنا تھا کہ جنگ صرف مذاکرات کی میز پر ہی ختم ہوگی، انہوں نے کہا کہ فوجی نقطہ نظر سے یہ ایک بہت مشکل لڑائی ہے۔دوسری جانب یورپ کے بعد امریکا نے بھی یوکرین کو مزید بھاری اسلحہ دینے کا اعلان کر دیا ہے،امریکی محکمہ دفاع کے مطابق یوکرین کو مزید ڈھائی ارب ڈالر کی فوجی امداد دی جائے گی۔امریکی امداد میں سینکڑوں بکتر بند گاڑیاں، راکٹ، بارود اور دفاعی سسٹم شامل ہوں گے۔ بائیڈن انتظامیہ نے یوکرین سے کہا ہے کہ نئے اسلحے کی فراہمی تک وہ روس پر جوابی حملے نہ کرے۔ واضح رہے کہ  روس نے پھر دھمکی دی ہے کہ یوکرین جنگ میں اگر اس نے شکست کھائی تو ایٹمی جنگ ہو سکتی ہے۔روسی سیکورٹی کونسل کے نائب چیئرمین دمتری میدودیف کا کہنا ہے کہ ایٹمی طاقتوں نے کبھی بڑے تنازعات نہیں ہارے، مغربی اتحادیوں کو یوکرین جنگ کے نتائج پر غور کرنا چاہئے۔یوکرین جنگ کو دیکھتے ہوئے کہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ امریکہ اپنے  مفادات کے تحفظ اور حصول کیلئے کسی بھی حد تک جاسکتا ہے یہ جو یوکرین پر روس چڑھ دوڑا ہے تو یہ کوئی اچانک واقع نہیں بلکہ یہ تو مسلسل امریکہ کی طرف سے یوکرین کو روس کے خلاف ابھارنے کا نتیجہ ہے۔ اب اگر روس کے پڑوس میں سرحد پر امریکہ اور نیٹو افواج دندناتی پھریں تو بھلا روس کیسے برداشت کرسکتا ہے اس لئے تو اس نے یوکرین کو سبق سکھانے کیلئے اس پر حملہ کیا اور اب یہ حالت ہے کہ مغرب اور امریکہ سب مل کر بھی روس کا مقابلہ نہیں کرسکتے اور نتیجے میں یوکرین تباہی سے دوچار ہوگیاہے۔ یہ تو اب ایک کھلی حقیقت ہے کہ روس اور چین کے آپس میں مل جانے کے بعد امریکہ کو مشکل کا سامناہے اور ایک طرف اگر وہ روس کو یوکرین میں مصروف رکھ کر اس کے مفادات کو نقصان پہنچانے کیلئے سرگرم ہے تو دوسری طرف اس نے چین کے ساتھ بھی بھارت اور تائیوان کے ذریعے چھیڑ خانی شروع کر دی ہے۔تاہم چین اپنی ترقی اور خوشحالی کے سفر میں کسی کو رکاوٹ نہیں بننے دے رہا۔ چین  بھارتی سرحد کے قریب 400 میڑ طویل ڈیم بنا رہا ہے جس پر ان دو ممالک میں پہلے سے موجود کشیدگی میں مزید اضافے کا امکان ہے  مگر اس کا امکان بہت کم ہے کہ چین اس ڈیم پر کام روک دے۔جہاں تک بھارت کا معاملہ ہے تو وہ کسی بھی لحاظ سے چین کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں اس کا بس تو نہتے کشمیریوں پرہی چل سکتا ہے۔ جہاں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کی نہتے کشمیریوں پر روزانہ نت نئے  مظالم کی داستانیں رقم ہو رہی ہیں۔