خبر ہے کہ امریکہ 19 جنوری کو قرض لینے کی اپنی حد تک پہنج چکا ہے۔جس کے بعد امریکہ کے محکمہ خزانہ نے ادائیگی کے ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے چند فوری اور خصوصی اقدامات اٹھائے ہیں۔قرض کی آخری حد کو چھونے کا مطلب یہ ہے کہ امریکی حکومت اب اس وقت تک مزید رقم قرض نہیں لے سکتی جب تک کانگریس قرض حاصل کرنے کی لِمٹ یعنی حد کو بڑھانے پر راضی نہ ہو جائے۔ اس وقت امریکی حکومت کی قرض حاصل کرنے کی حد تقریبا 31.4 کھرب ڈالر ہے۔ 1960 کے بعد سے سیاست دانوں نے قرض کی حد میں 78 بار اضافہ، توسیع یا نظر ثانی کی ہے۔ اگر صرف پچھلے چھ ماہ کی بات کی جائے تو تین مرتبہ اس حد پر نظر ثانی کی گئی ہے۔لیکن اس مرتبہ صورتحال تھوڑی مختلف ہے کیونکہ کانگریس میں معاملات گذشتہ دو ہفتوں سے تنا ؤکا شکار ہیں یعنی اس وقت سے جب سے ریپبلکنز نے ایوانِ نمائندگان کا کنٹرول حاصل کیا ہے اور وہ مسلسل اخراجات میں کمی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ایسی صورت یہ خدشات جنم لے رہے ہیں کہ اس بار سیاست دان ردِ عمل ظاہر کرنے میں (یعنی قرض حاصل کرنے کی حد میں اضافے کے حوالے سے) سست روی کا مظاہرہ کریں گے، جس کی وجہ سے امریکہ کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور یہ صورتحال امریکہ کو اپنی تاریخ میں پہلی بار جان بوجھ کر ڈیفالٹ کی جانب لے جا سکتی ہے۔آئندہ چند ماہ کے لیے ملک کی اکثریتی آبادی کو اس معاشی صورتحال کے کوئی اثرات محسوس نہیں ہوں گے یا ہوں گے بھی انتہائی کم۔امریکی محکمہ خزانہ قرض لینے کی حد کو تجاوز کرنے سے روکنے کے لیے اقدامات کر کے صورتحال کو سنبھال سکتا ہے۔ماضی میں اس صورت حال کا تدارک یوں کیا گیا تھا کہ وفاقی ملازمین کے ریٹائرمنٹ اور ہیلتھ بینیفٹ فنڈز میں کی جانے والی سرمایہ کاری کو معطل کر دیا گیا اور پھر صورتحال میں بہتری کے بعد میں ان فنڈز کا دوبارہ اجرا ء کر دیا گیا۔19 جنوری کے ایک خط میں وزیر خزانہ جینٹ ییلن نے کچھ اسی قسم کا اعلان کیا۔ یعنی سول سروس ریٹائرمنٹ اینڈ ڈس ایبلٹی فنڈ کے لئے پانچ جون تک قرض جاری کرنے کو معطل کر دیا گیا اور اس کے ساتھ ساتھ پوسٹل سروس ریٹائرڈ ہیلتھ بینیفٹ فنڈ کو بھی معطل کر دیا گیا ہے۔خط میں مزید کہا گیا کہ قانون کے مطابق، قرض کی حد میں اضافہ یا اس کے معطل ہونے کے بعد ان دونوں فنڈز کا دوبارہ اجرا کر دیا جائے گا اور یہ کہ ریٹائرڈ اور وفاقی ملازمین ان اقدامات سے متاثر نہیں ہوں گے۔2011 میں اس مسئلے پر جو تعطل ہوا تھا اس کی وجہ سے کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی ایس اینڈ پی ملک کی درجہ بندی گھٹانے پر مجبور ہو گئی تھی اور ایسا امریکہ کی تاریخ میں پہلی بار ہوا تھا۔حکومتی تجزیہ کاروں نے اندازہ لگایا ہے کہ اس سال تاخیر کی وجہ سے امریکی ٹریژری کے لئے قرض لینے کی شرح میں کم از کم 1.3 ارب امریکی ڈالر کا اضافہ ہوا کیونکہ سرمایہ کاروں نے غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے زیادہ شرح سود کا مطالبہ کیا۔تجزیہ کار پہلے سے ہی یہ توقع کر رہے ہیں کہ رواں سال اس موضوع پر ہونے والی بحث مالیاتی بازاروں میں بے چینی کا سبب بنے گی۔ییلن کا اندازہ ہے کہ خصوصی اقدامات کم از کم جون تک امریکہ کے لیے مہلت حاصل کر سکتے ہیں لیکن اس وقت تک حکومت اپنے بل ادا نہیں کر سکے گی۔یہی وہ منظر نامہ ہے جسے بہت سے تجزیہ کار ایک حقیقی معاشی تباہی کے طور پر دیکھتے ہیں۔اگر اس سے بچنا ہے تو بعض ماہرین کے مطابق حکام کو ڈیفالٹ سے بچنے کے لئے ہر ممکن کوشش کرنا ہوگی۔اس کا مطلب سود کی ادائیگی کے طریقے تلاش کرنا ہے۔ ڈیفالٹ ملک کے اعتبار کو برباد کر سکتا ہے، عالمی مالیاتی منڈیوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے اور وہ اس طرح کہ وہاں امریکی قرضوں کی بہت زیادہ تجارت کی جاتی ہے کیونکہ امریکی بانڈز کی خریداری کو روایتی طور پر کم خطرناک سرمایہ کاری سمجھا جاتا ہے۔کرنسی کے طور پر ڈالر کمزور ہو جائے گا اور ابتدائی طور پر حکومت کے لئے قرض لینے پر شرح سود بڑھ جائے گی یعنی مہنگے قرضے ملیں گے اور بالآخر اس کا اثر عام لوگوں پر بھی ہو گاصورت حال کا یہاں تک پہنچنا پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا ہے اور اس سے صارفین کے اعتماد اور معیشت کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچے گا۔