موسم تو اچانک بدل جاتا ہے۔کبھی اجیالا ہوتا ہے تو کبھی یکدم بادل آکر اتنا ہنگامہ کھڑاکر دیتے ہیں کہ وہ اجالے اندھیاروں میں بدل جاتے ہیں۔ان دنوں چلنے والی برفانی ہواؤں نے تو سمجھو بس منجمد کر دیاہے۔بندہ کہیں کا نہیں رہتا۔ بس دھوپ میں بیٹھے رہو تو کام کاج کون کرے گا۔ کون دفتر تو کون دکان کو اور کون سکول کالج کوروانہ ہوگا۔لیکن اگر اس موسم کی مشکلات زیادہ ہیں تو اس میں ایک ہی دن میں کبھی گرمی کا احساس ہوتا ہے کہ بس یہ پت جھڑ میں چلنے والی لوکل ہوائیں گئیں اپنے اختتام کو پہنچ گئیں۔ مگر جانے موسم کا یہ تغیر وتبدل ہمیں کہا ں لے جا کر کھڑا کرے گا کہ بیٹھے بیٹھے کہ آگ پر تاپ رہے ہوں اور کمبل پٹو اور چادریں اوڑھ رکھی ہوں انگیٹھیاں جل رہی ہوں اور چلغوزہ تو خیر کھانے سے رہے مگر مونگ پھلی چھیل کر لحاف میں گھسے ایک ہاتھ باہر نکال کر چائے کے ساتھ کھاتے ہوں یا گاہے سویاں پکا کر دودھ میں ملا کر معدوں میں پہنچاتے ہوں اچانک گرمی کا احساس ہوتا ہے۔دوسروں سے پوچھتے ہیں کہ مجھے گرمی لگ رہی کیا آپ کو بھی لگ رہی ہے۔موقع پر موجود افراد وعدہ معاف گواہ بن جاتے ہیں کہ ہاں گرمی گرمی سی محسوس ہوتی ہے۔سہہ پہر تو یہ عالم رہتا ہے مگر شام سے وہی برف زاروں کی سی کیفیت بن جاتی ہے۔موسم کی بے یقینیاں اس قدر بڑھ گئی ہیں کہ کراچی جیسے شہر میں بھی اس بارسخت سردی کے ڈیرے ہیں۔ہمارے ہاں پشاور میں گرمی اگر پڑے تو ٹاپ کی گرمی ہوتی ہے اور سردی ہو تو پھر اس کا توڑبھی کوئی نہیں ہوتا۔ مگر سردی میں گرمی اور دوپہر کے بعد سردی اور رات کو پھر گرمی کا یہ احساس حیرت کی بات ضرور ہے۔لگتا ہے موسم کی پیش گوئیاں کرنے والوں کی باتیں سچ ہیں۔ وہ یہ کہ عالمی طور پر موسم میں تبدیلیاں آ رہی ہیں۔اوپر جو گلیشئر ہیں وہ پگھل رہے ہیں۔عالمی گرمی زیادہ ہونے لگی ہے۔جس کی وجہ سے سیلاب جیسے کڑے حالات سے گزرنا ہوگا۔پھر ہمارے ہاں تو پانچ ماہ قبل سب کچھ گزر گیا۔ پھرایسے بھی گزرا کہ تباہی کی داستانیں ہر سُو بکھری ہیں۔سیلاب میں دنیا کے ممالک نے جو امداد ہمیں دی وہ اس تباہی کے آگے ناکافی ہے۔ دل کہتا ہے کہ آج تو گرمی ہوگی مگر جب سورج نکل آتا ہے تو ٹھنڈی ہواؤں کا راج شروع ہو جاتا ہے۔پھر روپے پیسے کے لحاظ سے بندہ کو اپنی خرید کی قوت پررونا آنے لگتا ہے۔وہ کوئی چیز خریدنے جائے تو دونمبری میں ایک نمبر کی چیز لائے گا۔ جس کو دیکھ کر اس کو گھروالے کوسنے دیں گے۔ چاروں سمت میں دو نمبر اشیاء کی پھیلی ہوئی ناگوار گیسوں کی بُو ماحول کو پراگندہ کر رہی ہیں۔ہم ان برفانی ہواؤں میں گرمی جیسے موسم کی سانسوں کی روک تھام کیسے کر سکتے ہیں۔جو ہو رہا ہے اس کو محسوس کرنا ہے اور دیکھنا ہے اور بس جھیلنا ہے۔اس سال تو موسم ِ سرما کی شدت کچھ زیادہ رہی ہے۔پندرہ سالوں پہلے یہ چرچاعام ہواتھا کہ اب دنیا بھر میں گرمی زیادہ رہے گی۔ مگر ہم نے کچھ اور دیکھا۔ وہ یہ کہ دنیا بھر میں سردی کی لہو جمادینے والی لہر آئی۔ ہر طرف کہر اور وہ ممالک جہاں اس کا گمان نہ ہو وہاں بھی برفانی ہواؤں کے طوفانوں نے جل تھل مچا دیا اور ترقی یافتہ خطے بھی اس موسم کے آگے ہینڈز اپ ہو گئے۔وہاں بھی اس ٹھنڈک میں لاشیں گرگئیں۔اب تو خیر سے بہار کا موسم دو ہاتھ پر ہے۔ذرا جنوری ڈھلک جائے تو بس فروری میں خوبرو ہوائیں چلیں گی اور موسم نے معتدل ہونا ہے پھر اس میں کشش پیدا ہوگی اور شہری اپنے رکے ہوئے کاموں کی انجام دہی کو باہر نکلیں گے۔ مگر دیکھیں کیا ہوتا ہے۔خدا کرے سب اچھا ہو۔کیونکہ موسموں کی جو ترتیب ہمارے ذہن میں ہے وہ تو از سرِ نو تربیت پا رہی ہے۔اس لئے بہار میں دیکھیں گے پھول تو کھلیں گے مگر یہ نہ ہو موسم کی ادائیں ا س موقع پر نیا روپ سروپ پیش کریں۔موسم کے اس تغیرو تبدل میں ہمیں اپنے رویوں پر نظرِ ثانی کرناہوگی۔ہم بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ مگر ہم کرنا نہیں چاہتے۔کوئی اپنی حالت تبدیل نہیں کرنا چاہتا۔ہم تو اپنے اوپر فرض کیا ہوا کام دوسروں کے سر تھوپنا چاہتے ہیں۔چاہتے ہیں کہ ہم جو گل کھلائیں اس کو دوسرے صاف کریں۔مگر ایسا نہیں ہوگا۔ماحول کو گندا اور پراگندہ کرنے سے ہمیں ہاتھ کھینچاہوگا۔وگرنہ یہی زمین ہوگی اور ہمارے لئے جلتی ہوئی آگ کا نگر ہوگا اور ہم اپنے کرتوتوں کی سزا بھگت کر اس پر رین بسیرا کریں گے۔