نیند کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ایک ہی کمرے میں اگر اپنے بستر سے ہٹ کر دوسرے کونے میں بھی سویا جائے تو آنکھوں سے نیند بھاگ جاتی ہے۔مگر کہیں تو ریت پر لیٹے اور سر تلے اینٹ رکھ لی وہاں بھی آنکھ لگ جاتی ہے۔محسن احسان کا شعر ہے ”ترس نہ اتنابھی کمخواب وپرنیاں کے لئے۔سکونِ دل ہے میسرتو خاک پرسو جا“۔پھرایک اور شعر یاد آیا ”نیندکانٹوں کے بستر پہ بھی آ جاتی ہے“۔پھر نیند تو سولی پر آ جاتی ہے۔مگر غالب کیوں اتنے عاجز رہے۔فرمایا”موت کا ایک دن معین ہے۔نیند کیوں رات بھر نہیں آتی“۔اس لئے ہم نے اول ہی یہ جملہ لکھا کہ نیند کامعاملہ بھی عجب ہے ”نہ نیند آئی تم آئے نہ موت آئی“۔اپنے گھر سے بے گھر ہو کر کہیں کسی اور کے مکان میں جا پہنچے تو رات وہاں بھی آنکھ نہیں لگتی۔کیونکہ اپنے تن سے وہ بستر جدا ہو چکا ہوتا ہے۔جس پرنیند کی پریاں آکر بندے کو اڑن کھٹولے پراپنے سنگ لے جاتی ہیں۔وہ ٹوٹی ہوئی چارپائی کی ڈھلکی ہوئی ادوین پر اگر تکیہ نہ ہو بھی ہو مگر اپنا گھر اپنا بستر ہو تو خوب مزے کی نیند آتی ہے۔قمر جلالوی نے کہا ”ہزار عیش قفس میں سہی وہ بات کہاں۔کہ اپنا گھرہوا کرتا ہے اپنا گھر پھربھی“۔پھرعزیز اعجاز فرماتے ہیں ”در در کی ٹھوکر کھا کر لوٹ آتا ہوں۔اپنا گھر پھربھی اپنا گھر ہوتا ہے“۔ اس لئے کہ وہاں اپنے رشتے اپنے دیوارو در موجود ہوتے ہیں۔ اپنی مرضی سونا اپنی مرضی جاگناہوتاہے اپنا بچھونا ہوتا ہے۔جب جی چاہا چارپائی پر لوٹ ماری اور موسم گرم ہواتو بنیان پہنے وہاں دراز ہوگئے۔دوسرے گھروں میں ہوٹلوں میں اس ٹوٹی ہوئی ادوین کے مقابلے میں اگر مخملیں بسترہو خوابیدہ ماحول ہو شمع شبستان کا سا اندھیرا اجالاہو مگر وہاں بھی دل بے چین ہوگا۔اپنی نیند اپنے خواب۔خواہ وہ خواب ریزہ ریزہ ہوں مگر اپنی چارپائی ہی پر دیکھنے میں لطف محسوس ہوگا۔مگر وہ بھی ہیں جو پریشاں حال ہوتے ہیں۔جانے کیا ہوا ہوتا ہے ان کو نیند نہیں آ پاتی۔نیند کتنا بڑا تحفہ ہے ان کے لئے جن کی آنکھیں اس کیلئے ترستی ہیں۔کاش نیند آجائے۔تنہائی کا زہر بھی رگوں کو کاٹتا ہو اور گھر بھی سُونا ہو اور ساتھ بات کرنے والا تک نہ ہو تو یا محفل بھی ہو دل بے سکون ہو تو نیند کی گولی لینا پڑتی ہے۔ویسے آج کل نیند جیسے تحفہ کے لئے آنکھیں تر س ترس جاتی ہیں۔ اگر نیند کی گولی نہ لی ہو تو جو بیمار ہیں وہ آدھی را ت کو اچانک اُٹھ کر بیٹھ جاتے ہیں۔اب ان کی آنکھوں کو کون نیند دلائے نیند آئے گی تو وہ سو پائیں گے۔ کیونکہ نیندکی گولیاں بازار میں آج کل تو اکثر میڈیسن سٹور پر کہا جاتا ہے کہ نہیں آ رہیں شارٹ ہیں۔جہاں میرے ذہن میں سوال اُگنے لگے میں ضرور اگلے سے پوچھ لیتا ہوں۔ خواہ کوئی گدھا گاڑی چلانے والا ہو یا بڑی بھاری بھرکم ٹرک ہی ڈرائیوو کرنے والا ہو۔ادویات کی دکانوں سے پوچھتا ہو ں کہ کون سی دوا نہیں آرہی۔جن میں اکثر یہی کہتے ہیں کہ سکون آور گولیاں شارٹ ہوتی ہیں۔باقی تو مل جاتی ہے۔ایک نہ سہی دوسری دکان سے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عوام الناس از حد پریشان ہے۔ان کی تو راتوں کی نیند حرام ہو چکی ہے۔شعروں کا معاملہ کنٹرول سے باہر ہے۔کیونکہ بات کہیں کی ہو شعر کہیں اور سے آ جاتا ہے۔ آوارہ اشعار ہیں گھومتے پھرتے ہیں۔جو ایسی صورتِ حال میں کہ مذکور ہے اورنیند کے باب میں انتہائی سنجیدہ ہے شعروں نے تو از خود آن داخل ہونا ہے۔وہ کیا شعر ہے کہ ”کھلتا کسی پہ کیوں مرے دل کا معاملہ۔ شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے“۔مگر وہ بھی تو ہیں جو راتو ں کو جان بوجھ کر جاگتے ہیں۔پھر دن چڑھے اپنا مزے سے خوابِ غفلت میں سوئے رہتے ہیں۔”اٹھا جو صبح خواب سے وہ مستِ پُر خمار۔خورشید کف کے بیچ لئے جام آگیا“۔حالانکہ رات سونے کے لئے بنی ہے۔مگر صبح دیر سے اٹھنا کئی طرح سے قابلِ تعریف نہیں۔انگریز بھی جلدی سونے اور جلدی اٹھنے کے قائل ہیں۔ اس بات کو بہ نظرِ استحسان دیکھتے ہیں۔جب ہم نے ہر چیز میں ان کی نقل کرنا ہے تو ہم کیوں اس بات میں ان کو فالو نہیں کرتے۔”نہ نیند نیناں نہ انگ چیناں۔ نہ آپ آوے نہ بھیجے پتیاں“۔اب اس وقت بھی آنکھوں کے دو چراغ روشن ہیں۔رات گہری ہو چکی ہے۔یہ دیئے بجھیں گے تو آنکھ کی کٹیا میں اندھیرا ہوگا نیند کے لئے ماحول سازگارہوگادیر سے راہ دیکھ رہے ہیں کہیں سے نیند کے قافلے میں گھوڑوں کی ٹاپوں سے اُڑتی ہوئی دھول دکھائی دے۔