مشہور معالج اور کئی کتابوں کے مصنف ڈاکٹر محمد حفیظ اللہ اپنی زندگی کے تجربات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ”یہ انیس سو ستر کی دہائی کے اوائل کی بات ہے۔ ہم کیڈٹ کالج حسن ابدال میں پڑھتے تھے۔ ہمارا ایک ساتھی کیڈٹ تیز طرار قسم کا تھا۔ کبھی کبھار سونے سے پہلے برآمدے میں چہل قدمی کرتے ہوئے وہ کہا کرتا تھا کہ کامیابی کے لئے کسی شخص کا غیر معمولی طورذہین، بہت زیادہ محنتی ہونا ہی ضروری نہیں ہوتا۔ بلکہ ذہانت اور محنت کے ساتھ خوش قسمت ہونا بھی لازمی ہے۔ اس وقت ہمیں اپنے ساتھی کی باتوں کی گہرائی کا اندازہ نہیں تھا۔ ہم کسی شرارت کی صورت میں پکڑے نہ جانے، پڑھائی کے بغیرامتحان میں اچھے نمبر لینے اورکارکردگی کے بغیر میچ جیتنے کو ہی خوش قسمتی سمجھتے تھے۔میں ہسپتال میں نیا نیا آیا تھا ایک دن معمول سے کچھ پہلے ایک جگہ ملازمت کے انٹرویو دینے نکلنے لگا۔ نکلتے وقت سینئر رجسٹرار سے ملاقات ہوئی ان کے استفسارپر میں نے بتایا کہ ایک ملازمت کا انٹرویو دینے جارہا ہوں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ اس ادارے میں کام کرچکے ہیں۔ اگر وہ پوچھیں تو میرا نام بتادینا۔ انٹرویو لینے والے نے ریفرنس کا پوچھا تو میں نے اپنے سینئر رجسٹرار کا نام بتایا۔ انٹرویو لینے والے نے مجھے باہر انتظار کرنے کو کہا۔ بعد میں انہوں نے میرے سینئر رجسٹرار کو فون کرکے تصدیق بھی کی۔اس انٹرویو میں مقامی گریجویٹ اور زیادہ تجربہ رکھنے والے امیدوار بھی موجود تھے۔ لیکن سینئر رجسٹرار کی بروقت رہنمائی اور چند توصیفی جملوں کی وجہ سے مجھے دیگر امیدواروں پر فوقیت دی گئی اور مجھے ملازمت مل گئی۔جب میں برطانیہ میں کام کرتا تھا تو ایک دن میرے کنسلٹنٹ نے مجھے پورٹس ماؤتھ میں پوسٹ گریجویشن کرنے کی پیش کش کی گویا یہ پوری تنخواہ کے ساتھ چھٹیاں منانے والی پیش کش تھی۔ میں نے یہ پیش کش بلاتامل قبول کرلی۔ میں چونکہ امتحان سے حال ہی میں فارغ ہوا تھا۔ کوئی تجربہ نہیں تھا۔ لیکن کام کی
ضرورت تھی۔ پورٹس ماؤتھ میں شام کے کھانے کے دوران وہاں لیکچر دینے والے ایک سینئر کارڈیالوجسٹ سے بات چیت کا موقع ملا۔ وہ خود لیڈز کے ایک بہترین ہسپتال میں کام کرتا تھا مجھے بھی وہیں کام دلانے کا وعدہ کیا۔ اگلے روز مجھے لیڈز کے ہسپتال میں انٹرویو کے لئے بلایا گیا اور مجھے جاب کی پیش کش ہوئی۔ خوبی قسمت سے اپنے خوابوں کو شرمندہ تعبیر ہوتے دیکھ کر میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ کئی سال پہلے کی بات ہے۔ میں رمضان المبارک کے آخری عشرے میں عمرہ ادا کرنا چاہتا تھا۔ لیکن ناگزیر وجوہات کی وجہ سے یہ آزور پوری ہوتی دکھائی نہیں دے رہی تھی۔میں نے اپنے ہم سفر دوست کو صورتحال سے آگاہ کیا تو انہوں نے پوچھا کہ اگر آپ دل سے چاہتے ہیں کہ تمہیں عمرہ کرنے کا موقع ملے تو نماز حاجت پڑھو، میں حرم شریف کا طواف کرکے آپ کے لئے خصوصی دعا مانگوں گا۔ دو دنوں کے اندر سعودی سفارت خانے کی طرف سے مجھے ویزہ اور جہاز کا ٹکٹ بھیج دیا گیا۔ میرے لئے ہوٹل میں کمرہ بھی بک کیا گیا تھا۔پانچ دنوں کے اندر میں حجاز مقدس کے سفر پر روانہ ہوگیا اور ماہ صیام میں عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کی میری دیرینہ آرزو پوری ہوگئی۔عقل مند لوگوں کا قول ہے کہ امتحان میں کامیابی کے لئے محنت کا تناسب
ننانوے فیصد اور حوصلہ افزائی کا ایک فیصد ہے۔ محنت کا کوئی متبادل نہیں۔ پسینہ بہا کر طویل محنت کے ذریعے جو کچھ سیکھا جاتا ہے وہ انسان کی زندگی کا اثاثہ ہوتا ہے۔ آپ کو شہ کبھی کبھار ہی ملتی ہے۔ لیکن کشتی کو ساحل مراد تک لے جانے والی طاقت صرف محنت ہوتی ہے۔ خوب محنت کے بعد نتیجہ قسمت پر چھوڑنا چاہئے۔ مشہور فلاسفر کیون ایوبنک کا قول ہے کہ انسان عام طور پر وہی بنتا ہے جو وہ اپنے بارے میں سوچتا ہے۔اگر آپ سوچیں کہ ایک مخصوص کام میرے بس سے باہر ہے تو واقعی وہ کام اس کے لئے ناممکن ہوجاتا ہے۔اور اگر انسان عزم کرے کہ وہ یہ کام انجام تک پہنچا کر ہی چھوڑے گا۔ تو ناممکنات بھی ممکنات میں بدل جاتی ہیں۔ کام میں دیانت داری بھی شرط ہے۔ اگر خلوص نیت اور ایمانداری سے کام شروع کیا جائے اور اس کا انجام خیر پر ہوتا ہے۔ رچرڈ برسنن کہتے ہیں کہ اگر کوئی آپ کو بہترین موقع کی پیش کش کرتا ہے۔ جو بظاہر آپ کو ممکن نظر نہیں آتا۔ تب بھی کہہ دو۔ کہ میں یہ کام کرسکتا ہوں۔ پھر وہ راستے تلاش کرو جو آپ کو منزل تک پہنچا سکتے ہیں۔ خوابوں کو حقیقت کا جامہ پہنانے کے لئے بھرپور تیاری، اچھی منصوبہ بندی اور دل جمعی سے کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔اپنے اہداف تک پہنچنے کے لئے انسان کو جو چیزیں درکار ہیں۔ وہ صبر و استقامت، مثبت رجحان اور تسلسل ہے۔ خواہ تعلیم کا میدان ہو۔ کھیل یا زندگی کا کوئی بھی شعبہ۔ راتوں رات کچھ حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ ایک درخت کو پھل دینے میں گرمی اور سردی کی سختیاں جھیلنی پڑتی ہیں۔ پھر کونپلیں پھوٹتی ہیں۔ پھول نکل آتے ہیں پھل لگتے ہیں اور سورج کی تپش سہنے کے بعد وہ پھل پک جاتے ہیں۔ امید بہار کے لئے شجر سے پیوستہ اور امید کا دامن تھامے رکھنا پڑتا ہے۔“اس تحریر کا حاصل مطالعہ کامیابی حاصل کرنے کے حوالے سے مصنف کے گرانقدر خیالات اور زندگی کے تجربات ہیں۔