فیس بک کی طرف بھی کیا توجہ دیں۔یہاں تو وٹس ایپ ہی سنبھالا نہیں جاتا۔نیٹ کی دنیا حد سے زیادہ اورپہنچ سے کہیں دور وسیع ہو چکی ہے۔اب یہ حال ہے تو آگے آنے والے دنوں میں جانے اس نیٹ ورک کے نئے جہان میں کیا کیا کرشمے سامنے آئیں گے‘موبائل سیٹ میں سات سمندر بند ہیں‘دنیابھر کی سیر ہے مگر ان سمندروں میں پانی کے جہاز میں نہیں اور نہ ان کے اوپر ہوائی جہاز میں ہے‘بلکہ ان سات آبی گزر گاہوں کے ہزاروں میل اوپر خلا ہی سے اس کے نظارے ہیں‘گویا پورا زمینی سیارہ جہاں سے ایک فٹ بال کی طرح گول پوسٹ کی طرف ہوا کے زور پر اپنے ہی دائرے میں گھومتا ہوا گول کیپر کی بغل سے ہو کر گول پوسٹ کے جال میں گرتا جاتا ہے۔یہاں توان گنت ایپ ہیں کچھ تو تفریح کے لئے ہیں اور کچھ صارف کی خود اپنی کاروباری اور دفتری پھر پیشہ وارانہ ضروریات کے تحت ہیں۔مگر صرف پیشہ ہی کو لیں تو وٹس ایپ کو بھی گرفت میں رکھنا گراں ہوا جاتا ہے۔جہاں کام کاج زیادہ ہو خواہ کسی ادارے کا ہو وہاں فون میں نمبر بھی تو بے شمار ہوتے ہیں۔ایسے میں ہر ایک دوست عزیز اور دفتری و کاروباری ہمکاروں کے
ساتھ رابطہ رکھنا مشکل ہے اور پھر اس رابطے کو بحال رکھنا مزید گراں ہے۔صرف ایک فیس بک کو سنبھالنا ہی کارِ گراں ہے۔کیونکہ ایسا جادو چلاہے کہ آدمی کو اس کی ضرورت بھی ہے اور اس سے تفریح بھی حاصل کرنا ہے۔ کسی سے شکایت کرو کہ آپ اگر فیس بک دیکھ لیتے تو آپ کو اطلاع ہوجاتی۔وہ فرماتے ہیں کہ اصل میں صرف وٹس ایپ ہی کو دیکھتا ہوں۔اتنا وقت جو نہیں ملتا۔”کیا ایسے کم سخن سے کوئی گفتگو کر ے۔جو مستقل سکوت سے دل کو لہو کرے“(فراز)۔تفریح حاصل کرنے کا بھی وقت نہیں ملتا۔ہر ایک موبائل کے استعمال کرنیوالے کی اپنی پسندیدہ ویب ہے جو اس سے باہر نکلنا بھی چاہے تو نکل نہیں سکتا۔ پھر موبائل کو سمجھنا بھی تو ایک کوہِ گراں ہے۔کمپیوٹر کا دور بھی رخصت ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے‘اب تو ہاتھ میں موبائل ہو اور وہی بھی مہنگے والا ہو‘ کیونکہ سستے والے پرتو کسی نگاہ ٹکتی ہی نہیں‘کمال یہ ہے کہ کسی عام شام سے کام کرنے والے ہنر مند کو اور کسی بہت بڑے سکالر کو جو کتابوں کا کیڑا ہو ہر بندہ موبائل میں ڈالی ہوئی ویب سائٹس سے فائدہ اٹھاتا ہے‘بچوں تک کو ہر قسم کی تفریح حاصل ہوتی ہے پہلے شکایت کنندہ تھے کہ وقت نہیں رہا۔کیونکہ زمانہ مصروف ہو گیا ہے۔مگر اب تو موبائل کے وجود کی تخلیق کے ساتھ جو باقی ماندہ وقت تھا وہ تو موبائل کے استعمال کرنے میں صرف ہو جاتا ہے جہاں تک فون سننا اور کسی کوفون کرنا تھا اور کہیں ایس ایم ایس دیکھ لینا تھا تو وہ چلو ضرورت تھی۔پھر باقی کی لا یعنیاں جو موبائل میں ہیں ان سے دل لگی کرنا بیکار تصور ہوتا ہے تھا۔ مگر وہ لایعنیاں اب وقت گزر جانے کے بعد اپنے معانی خود پیدا کر چکی ہیں۔میت کا پیغام اور شادی بیاہ کی تقریبات کی اطلاعات اورکسان بھائیوں کو موسم کے متعلق معلومات والی پیش گوئیاں اور دکانداروں کے مال و اسباب کی خرید و فروخت کے اشتہارات
سب کچھ اب چھوٹے سے موبائل میں دیکھے جا سکتے ہیں۔اگر طالب علم کو امتحان دینا ہے تو اس کا رول نمبر بھی موبائل پر آئے گا اور اس کا رزلٹ بھی موبائل میں آنکھیں گاڑھنے سے حاصل ہوگا۔مقابلے کے امتحانات ہیں تو ادارے کی ویب سائٹ کو روزانہ کھول کر دیکھنا ہوگا کہ کون سا اشتہار نیا آیا ہے اور کون سارزلٹ آج اپ لوڈ ہوا ہے۔یہ دنیا تو پہلے ہی سمجھ سے باہر تھی اور اب تو باقی کی جو سمجھ بوجھ حاصل ہونے والی تھی وہ بھی دریا برد ہوگئی۔ اب تو ہر کس و ناکس نے موبائل رکھنا ہے وگرنہ وہ تو ماحول کا ساتھ نہیں دے سکے گا۔کیونکہ جو جاندار اپنے ماحول کا ساتھ نہیں دے سکتے وہ سائنس کی زبان میں اور اب معاشرتی حوالے کہیں دور اور پسماندہ رہ جاتے ہیں۔ ہر کسی کی جیب میں موبائل ضرور ہوگا وگرنہ گھرسے باہر جانا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔کیونکہ رابطہ ایک اہم حیثیت اختیار کر چکا ہے۔گھرہو یا دفتر دکان وغیرہ یا رشتہ دار دوست یار ہوں ساتھ والے گھر میں ہو یا دور پار کے دیس میں بسنے والے سات سمندروں کے ساحلوں پرآباد ہوں سب کے ساتھ ایک ہی رفتار سے رابطہ تو موبائل ہی کے ذریعے ممکن ہوگا۔