تین امور لائق توجہ ہیں۔ بجلی کی فراہمی سے جڑا مستقل مسئلہ کیا ہے؟ غیرمستقل سیاسی ترجیحات کن خرابیوں کا مؤجب ہیں؟ اور کیا مسئلے کے تکنیکی پہلو یعنی ادارہ جاتی اصلاحات اور ترسیلی نظام سے جڑے امور حل کئے بغیر بجلی کی پیداوار کا پائیدار حل تلاش کرنا ممکن ہے؟ مستقل مسئلہ‘ تئیس جنوری صبح سات بج کر تیس منٹ سے …… ”ملک گیر بجلی کا تعطل جاری ہے‘ جس سے وہ معمولات زندگی بھی متاثر ہیں جن کا تعلق برقی رو سے نہیں گویا پاکستان میں زندگی رک گئی ہے اور یہ صورتحال اِس حد تک غیرمعمولی ہے کہ امریکہ نے کہا ہے کہ اگر پاکستان اُسے برقی رو کی بحالی کے لئے کہے تو وہ مدد کرے گا۔ برقی رو کے تعطل کی بنیادی وجہ بجلی کی پیداوار اور اِس کی تقسیم کے نظام میں خرابی ہے جبکہ موجودہ تعطل (شٹ ڈاؤن) کی وجوہات معلوم کرنے کے لئے وزیراعظم نے تین رکنی تحقیقاتی کمیٹی بھی تشکیل دیدی ہے جو اِس پہلو پر بھی غور کرے گی کہ کہیں انٹرنیٹ کے ذریعے غیرقانونی مداخلت (ہیکنگ) تو نہیں کی گئی! لیکن چونکہ یہ پہلا موقع نہیں اور بدقسمتی سے پاکستان میں صارفین کو اکثر بجلی کے بریک ڈاؤنز کا سامنا رہتا ہے۔ اِس لئے تین ماہ میں ہوئے اِس دوسرے قومی بریک ڈاؤن اور گزشتہ نو برس میں آٹھ مرتبہ برقی رو کی قومی بندشوں کے تکنیکی پہلوؤں کو درست کرنے پر زیادہ توجہ دی جانی چاہئے۔ یہ معمول کی بات ہے کہ پورا شہر‘ کبھی کبھی پورا ملک اندھیرے میں ڈوب جاتا ہے اور حالات سے مایوس شہری اب غصے کا اظہار بھی نہیں کرتے بلکہ خاموشی سے سب کچھ برداشت کر رہے ہیں۔ غیرمستقل ترجیحات: بجلی کی حسب ضرورت پیداوار نہ ہونا (طلب و رسد میں فرق)‘ بجلی کے ترسیلی نظام کی بوسیدگی اور بجلی چوری جیسے تین عوامل اصلاح طلب ہیں‘حالیہ چند برس کے دوران‘ آنے والی حکومتوں نے صرف پیداواری صلاحیت کو بہتر بنانے پر توجہ مرکوز کی‘ اس بات کا احساس کئے بغیر کہ انہیں پیداوار اور تقسیم کے نظام کے بنیادی ڈھانچے سے جڑے مسائل سے بھی نمٹنے کی ضرورت ہے۔ کون نہیں جانتا کہ بجلی کا شعبہ قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے اور اِن قرضوں کی ادائیگی کے لئے درکار مالی وسائل نہیں ہیں جبکہ گردشی قرض ادا کرنے کے بعد بھی اِس میں اضافے کا سلسلہ پھر سے شروع ہو جاتا ہے۔ دوسری طرف بجلی کا ترسیلی نظام (ٹرانسمیشن انفراسٹرکچر) بہتر بنانے کی ضرورت (حاجت) اپنی جگہ موجود ہے‘ موجودہ حکومت نے قرض (بیل آؤٹ پیکج) کیلئے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے رجوع کر رکھا ہے لیکن بجلی کی تقسیم جیسے اہم شعبے کو بحران سے نکالنے کے لئے کوئی قابل عمل‘ طویل مدتی اور کثیرالجہتی حکمت عملی موجود نہیں۔ ایسی حکمت عملی کی ضرورت اپنی جگہ موجود ہے جس پر وفاق کی جملہ اکائیوں کو اعتماد ہو۔ لمحہ فکریہ ہے کہ قومی و صوبائی فیصلہ ساز تکنیکی ماہرین کی آرأ کو نظرانداز کرتے ہیں اور اِن کی ساری توجہ ہمیشہ ہی سے بجلی کی زیادہ پیداوار پر رہتی ہے جبکہ بجلی تقسیم کرنے کے نظام کو درست اور وسیع نہیں کیا جا رہا۔ کاش کہ سمجھ لیا جائے کہ بڑے منصوبوں (میگا پراجیکٹس) کے ذریعے مزید بجلی قومی سپلائی لائن (گرڈ) میں شامل کرنا مسئلے کا حل نہیں ہے نتیجتاً ”گھپ اندھیرے“ کا مقابلہ کرنے والے عوام کے لئے ہر مسئلے کی طرح بجلی بھی ”ڈراؤنے خواب“ جیسی ہے‘ جسے دیگر چیلنجوں کی طرح قبول کر لیا گیا ہے۔ بجلی کے ’بریک ڈاؤن‘ یا اِس کی بحالی کے عمل میں بار بار کے تعطل کی وجہ سے علاج گاہوں‘ درسگاہوں‘ عبادت گاہوں اور چھوٹے پیمانے پر کاروبار کرنے والے طبقات کو سب سے زیادہ پریشانی کا سامنا ہے۔ توجہ طلب ہے کہ پہلے ہی گیس بحران کی وجہ سے معمولات زندگی متاثر ہیں‘ زیادہ تر صارفین کو شدید سرد موسم کے باوجود گھروں کو گرم رکھنے یا کھانا پکانے کے لئے گیس میسر نہیں اور ایسی صورتحال میں اگر بجلی کی فراہمی بھی غیریقینی کا شکار ہو تو عوام کو درپیش مشکلات کی شدت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس وقت بجلی کے بریک ڈاؤن‘ گیس کی بندش اور پانی کی قلت جیسے مسائل مستقل ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ ایسے میں وقت ترجیحات پر نظر ثانی کا ہے‘ بجلی بریک ڈاؤن کی انٹرنیٹ ہیکنگ یا دیگر تاویلات کے ذریعے پردہ پوشی کی بجائے بوسیدہ ترسیلی نظام کی بہتری اور تکنیکی خرابیاں دور کرنے پر تمام تر توجہ اور وسائل مرکوز ہونے چاہئیں کیونکہ بجلی بریک ڈاؤن کے ساتھ ملک کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کا اس وقت ملک متحمل نہیں ہو سکتا۔