مناسب اور بروقت فیصلہ 

 خیبرپختونخوا کی حکومت کا یہ فیصلہ دانشمندانہ فیصلہ ہے کہ سابق وزراء، بیوروکریٹس و مختلف شخصیات سے پولیس گارڈز واپس کر کے پشاور کے امن عامہ کے حالات کے پیش نظر انہیں مختلف پولیس تھانوں میں متعین کر دیا گیا ہے۔ اس فیصلے کی رو سے ڈیڑھ ہزار اہلکاروں کی واپسی کا فیصلہ کیا گیاہے۔ اب کچھ دیگر اہم ملکی اور بین الاقوامی امور کا تذکرہ ہوجائے۔دو روز قبل بجلی بریک ڈاؤن نے وطن عزیز میں زندگی کو مفلوج کر کے رکھ دیا اور کم و بیش 20 گھنٹوں تک ملک اندھیروں میں ڈوبا رہا۔ اس سے صرف ٹیکسٹائل انڈسٹری کو 7کروڑ ڈالر کا نقصان ہوا۔ اب بھلے اس کی کوئی بھی وجہ بھی بیان کی جائے پر یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ بجلی کا یہ بریک ڈاؤن انفراسٹرکچر کی کمزوری کا نتیجہ تھا۔جب بھی اس قسم کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو اس کی وجوہات جاننے کے بعد ان کو عوام کے ساتھ شیئر کرنا ضروری ہوتا ہے اور پھر اس سے سبق لے کر حفظ ماتقدم کے طور پر اس بات کا اہتمام ضروری ہوتاہے کہ آئندہ اس قسم غلطی کا ارتکاب نہ ہو۔ یورپی یونین نے حال ہی میں روس کے خلاف جس جارحانہ پالیسی کا 
اعلان کیا ہے اس سے دنیا میں ایسٹرن اور ویسٹرن بلاکس میں موجود کشیدگی میں مزید اضافہ ہو گا اور یہ بات بحیثیت مجموعی دنیا کے امن کیلئے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ لگ یہ رہا ہے کہ امریکہ روس کے خلاف یورپی یونین میں اپنے اتحادی ممالک کی چھڑی سے روس کو پیٹنا چاہتا ہے اور یورپی یونین کو کمیونسٹ برادری کے خلاف اسی طرح استعمال کرنا چاہتا ہے کہ جس طرح کسی زمانے میں وہ نیٹو ممالک کی قوت کو وارسا معاہدے کے ممبر ممالک کے خلاف استعمال کرتے تھا۔بالفاظ دیگر تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق جرمنی نے کہا ہے کہ اگر پولینڈ روس سے مقابلے کے لئے یوکرین کو جرمن ساختہ ٹینک دینے کا فیصلہ کرتا ہے تو وہ اس پر اعتراض نہیں کرے گا۔یوکرین نے جرمن وزیرِ خارجہ کے اعلان کا خیر مقدم کیا ہے۔ یوکرین کے وزیرِ دفاع نے کہا ہے کہ ان کے فوجی جلد ہی پولینڈ کی سرزمین پر یہ ٹینک چلانے کی تربیت شروع کر دیں گے۔یوکرین گزشتہ کئی ماہ سے روسی فوج کے مقابلے کے لیے مغربی ملکوں سے جدید ٹینک فراہم کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے کیوں کہ یوکرین کے پاس موجود ٹینک روس کے جدید ٹینکوں کا مقابلہ نہیں کر پا رہے ہیں۔
امریکہ سمیت کئی یورپی ممالک کا موقف ہے کہ جرمن ساختہ لیپرڈ ٹو ٹینک روسی ٹینکوں کا بہتر مقابلہ کر سکتے ہیں۔ لیکن جرمن حکومت یہ ٹینک یوکرین کو فراہم کرنے میں ہچکچا رہی تھی اور نہ ہی اس نے اس کی اجازت دینے پر آمادگی ظاہر کی تھی کہ یہ ٹینک خریدنے والا کوئی دوسرا یورپی ملک انہیں یوکرین کے حوالے کر دے۔جرمنی سے لیپرڈ ٹو ٹینک خریدنے والے پولینڈ اور بعض دیگر یورپی ملکوں نے کہا تھا کہ اگر جرمنی یوکرین کو یہ ٹینک نہیں دینا چاہتا تو وہ اپنے پاس موجود 
ٹینک کیف حکومت کو فراہم کرنے پر تیار ہیں۔امریکہ اور برطانیہ سمیت کئی نیٹو ممالک کا موقف تھا کہ جرمن ساختہ لیپرڈ ٹو ٹینک یوکرین کے لیے زیادہ موزوں ہیں اور جرمن حکومت کو اپنی ہچکچاہٹ ترک کر کے انہیں فوری طور پر کیف حکومت کے حوالے کرنا چاہئے۔ لیکن جرمن حکومت کو خدشہ تھا کہ ٹینک جیسے بڑے ہتھیار دینے سے نہ صرف روس ناراض ہوگا بلکہ اس اقدام سے روس یوکرین جنگ بھی مزید شدت اختیار کر سکتی ہے۔اس سے قبل روس کی حکومت نیٹو اتحادیوں کو کئی بار خبردار کر چکی ہے کہ وہ یوکرین کو ہتھیار دے کر جنگ کو مزید ہوا نہ دیں۔ ماسکو کا موقف ہے کہ کیف کو ٹینک جیسے بڑے ہتھیار دینے سے نہ صرف جنگ میں شدت آئے گی بلکہ اس کا لازمی نتیجہ مزید عام شہریوں کی ہلاکت کی صورت میں نکلے گا۔ اور امریکہ شاید یہی چاہتا ہے کہ یوکرائن میں لڑائی شدت اختیار کر جائے اور اسے یورپ میں اپنی پالیسیوں پر عمل پیرا ہونے کا موقع ملے یہ تو ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ امریکہ کے مفادات امن سے زیادہ جنگ سے وابستہ ہیں۔