وقت تیزی سے گزر رہا ہے اس کا دھارا کوئی روک نہیں سکتا تاہم بیتے لمحات کو کاغذ پراتار کر ان محفوظ ضرور کیا جا سکتا ہے، معروف براڈکاسٹر آغا ناصر اپنی یاداشتوں میں لندن میں تعمیر نو کے کاموں اور ان میں پاکستانی محنت کشوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ لندن کے روز شب بڑی تیزی سے گزرتے رہے رفتہ رفتہ اس شہر نے میرے دل میں گھرکرلیا اسکے کوچہ وبازار‘باغات‘دریا‘ پل‘زمین دو زریل‘ دومنزلہ بسیں سب کچھ مجھے اچھا لکھنے لگا تھا غیرمانوسیت اور اجنبیت کا احساس ختم ہوگیا چند روز ہوٹل ماؤنٹ بلینزنٹ میں قیام کے بعد میں نعیم خان کے چھوٹے سے گھر میں شفٹ ہوگیا نعیم میرے تایا زاد بھائی کا بیٹا تھا عمر میں مجھ سے پانچ چھ برس چھوٹا‘ گوراچٹا‘ صحت مند اور کرکٹ کا شوقین‘ جب وہ کراچی میں تھا جب بھی ایسا لگتا تھا جیسا یورپ سے آیا ہوا ہو‘ کراچی سے چلتے ہوئے میں نعیم خان کا پتہ ساتھ لے کرآیا تھا اور لندن آنے کے بعد پہلی فرصت ملی تو ایک پوسٹ کارڈ نعیم خان کو ارسال کردیا تین روز بعد جب میں ٹریننگ سنٹر سے باہر نکلا تو وہ انتظار کر رہا تھا اسے دیکھ کرمجھے بڑی خوشگوار حیرت ہوئی کراچی میں نعیم اور ہمارے گھر والوں کے تعلقات بہت ہی قریبی تھے‘ اس سے مل کرخاندان سے دوری کا احساس ختم ہوگیا اور دل کو احساس سا ہوا کہ اس دیار غیر میں کوئی میرا اپنا ہے‘نعیم نے چھوٹتے ہی جو پہلا سوال کیا وہ یہ تھاکہ میں کہاں ٹھہرا ہوں اور جب میں نے بتایاتو بولا آپ کہیں نہیں رہیں گے۔ وہ لندن کے مشہور کرکٹ گراؤنڈ اوول کے نزدیک ایک کمرے میں اپنے ایک دوست شمس الدین کیساتھ رہتا تھا جو اسکے کمرے میں اسکا ساجھے دار تھا کہانیاں ہزاروں پاکستانیوں کی تھیں جو ان دنوں تلاش روزگار میں انگلستان کا رخ کر رہے تھے دوسری جنگ عظیم کوختم ہوئے ابھی بیس برس سے بھی کم عرصہ گزراتھا‘یورپ زیر تعمیر تھا ہٹلر کی تباہ کاریوں سے ریزہ ریزہ ہو جانیوالی معیشت‘ صنعتی ادارے‘تجارتی مراکز آہستہ آہستہ سنبھالا لے رہے تھے سارے یورپ کی عمارتوں‘ سڑکوں اور دیگر عوامی مقامات پر جنگ اپنے نشانات اور اثرات چھوڑ گئی تھی لندن بھی پھر سے تعمیر ہو رہا تھا اور یہ سب کرنے کیلئے محنتی‘ جفاکش اور ہنر مند لوگوں کی ضرورت تھی جو اس زمانے میں باہر سے آنیوالے یہی لوگ ہیں جو انگلستان کے کارخانوں‘فیکٹریوں‘ذرائع مواصلات اور سرکاری دفاتر کے لوگ کام چلاتے رہے تھے اکثر آنیوالوں کا تعلق ان ملکوں سے تھا جو تاج برطانیہ کے زیر حکومت رہ چکے تھے پاکستان بھی ان میں شامل تھا اور یہی وجہ تھی کہ لندن میں گھومتے پھرتے ایسے پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد نظرآتی تھی جو بہت پڑھے لکھے تو نہیں تھے مگر محنتی اور جفاکش تھے‘ نعیم خان کے ہاں شفٹ ہونے کے بعد جیسے لندن میں مجھے ایک گھر مل گیا اگرچہ اسکی میری ملاقات زیادہ نہیں ہوپاتی تھی کیونکہ رات کو دیر سے جب میں واپس ہوتا تو نعیم اور اسکا دوست شمس الدین سوچکے ہوتے تھے اور صبح سویرے میرے جاگنے سے پہلے وہ اپنی اپنی نوکریوں پر چلے جاتے تھے۔“اس اقتباس کا حاصل مطالعہ یہ ہے کہ دیار غیر میں اپنوں کی چاہت کا احساس زیادہ شدید ہوتا ہے اور ا س کا اندازہ انہی افراد کو ہوتا ہے جو اپنوں سے دور دیا ر غیر میں وقت گزار چکے ہوں۔