یہ بجلی کے آنے سے پہلے اور پھر بجلی کے چلے جانے کے بعد کا قصہ ہے۔جو ہمارے جیسے لوگوں کا حصہ ہے۔وہ حصہ کہ جو ہم نے مانگا ہی نہیں۔مگر ہمیں ملا ہے اور بزور دیا گیا ہے۔وہ ہے انتظار اور انتظار۔بجلی کے آنے کا انتظار اور بجلی کے چلے جانے کا دھڑکا۔گرما کا موسم تھا تو اتنی بجلی نہ جاتی تھی مگر حیرانی ہے کہ سردیوں کی شاموں میں بجلی کیوں چلی جاتی ہے اور پھر مڑ کر نہیں آتی۔پھر سوال یہ ہے کہ آخر جاتی کہا ں ہے جو رات گئے دیر سے لوٹتی ہے۔صبح دم جب آنکھ کھلے تو بستر سے اندھیرے منہ اٹھیں تو دھڑام سے گرنے کا خطرہ ہو۔اس وقت بجلی کے بٹن پر ہاتھ جائے تو بیکار ہی لوٹ آئے۔ کیونکہ بجلی کے تاروں میں لائٹ کہاں ہوتی ہے جو کمرے کو روشن کرے۔یونہی دیواروں کو دیکھتے رہ جاؤ۔گرمی میں بجلی کے چلے جانے کامعمہ تو ہم خود ہی حل کر لیتے تھے کہ بجلی کی کھپت زیادہ ہے اس لئے نودوگیارہ ہوئی ہے۔مگر ان سردیوں میں جہاں نہ تو گھروں میں اے سی چل رہے ہیں او رنہ ہی بجلی کے اور آلات میٹر کے نمبروں کو تیزی سے گھمانے پر مجبور کر رہے ہیں۔ پھر سردی میں بجلی کے جانے آنے کی اتنی سرگرمی کیوں ہے۔اب ہر گھر میں تو یوپی ایس موجود نہیں ہے۔ کسی گھر میں ہو تو ایک ہی ہوگا کیونکہ یوپی ایس لگانا تو پچاس ہزار کا کھیل ہے۔ یہ نسخہ مہنگا ہے۔اگر دو بیٹریاں لگانا ہیں تو معاملہ اور بھی گراں تر ہے۔بجلی کے جانے کا ڈر اور اس قدر کہ پہلے تو معلوم نہیں کہ بجلی کس وقت جائے گی۔ یہاں تو کسی بھی وقت بجلی کے جانے کا پیغام مل سکتا ہے۔سو جلدی جلدی کام نپٹانے کی کوشش کرتے ہیں کہ بجلی کے چلے جانے کے بعد سارے کے سارے کاموں کے ادھورے رہنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ جلدی جلدی کپڑے استری کر لئے جائیں کہ میاں گھر سے نکلیں گے تو کپڑے استری نہ ہو ئے تو بات بری ہے اور ”بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی“ پھر تو ”لوگ بے وجہ جدائی کا سبب پوچھیں گے“۔ جلدی ہوتی ہے کہ بجلی چلی گئی تو کمپیوٹر پر کام کرنے والے یونہی اپنا سا منہ لے کر رہ جائیں گے۔ جو لکھ رہے ہیں وہ پورا نقش کاغذ پر انڈیل نہیں پائیں گے۔سو اس لئے بجلی کے جانے سے پہلے سو کام دھندے نپٹانا پڑتے ہیں۔کیونکہ اگر اعلان کر کے بجلی لے جائیں تو چلو بات بنے۔ بندہ بجلی کے جانے سے قبل ہی سارے کام نپٹا لے۔مگر بجلی چلی جائے تو بس بیٹھ رہو۔ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا بن جاؤ سوچو کہ لائٹ کب آئے گی اور واشنگ مشین کاسوئچ آن کر کے کپڑوں کو پھر سے دھونا شروع کر دیں گے۔ مگر چلتے ہوئے کام میں ایک بار رخنہ پڑ جائے تو سارا ٹیمپو خراب ہو جاتا ہے اور موڈ آف کر کے بندہ ایک طرف بیٹھ جاتا ہے۔کام کاج میں وہ یکسوئی جو بجلی جانے سے پہلے تھی دوبارہ آ نہیں پاتی۔اگر درزی جوڑا سی رہا ہے تو لائٹ کے غائب ہونے پرانتظار کرے گا جوڑا جب تک نہیں سی پائے گا تو دوسرے کی جیب سے رقم کیسے نکال پائے گا۔ جب بجلی جاتی ہے تو اس کے جانے سے پہلے اس کے جانے کا ڈر ستاتا ہے۔پھر اگر آجائے تو دوبارہ جلدی غائب ہونے کا دھڑکا سا لگا رہتا ہے جیسے ”زیست ہمسایے سے مانگا ہوا زیور تو نہیں۔ایک دھڑکا سا لگا رہتا ہے کھوجانے کا“۔تو کیا بجلی بھی محلول فارم میں آتی ہے کہ گیس کی طرح پائپوں میں سخت سردی کی وجہ سے جام ہوجاتی ہے۔پھر سخت ہو جانے پر آگے کو رواں نہیں ہو پاتی۔جیسے صبح کے وقت پراٹھے بناکر فروخت کرنے والے ہوٹلوں کے باہر ان کے بڑے توے کے نیچے سلینڈر میں گیس نہ آئے تو وہ سلینڈر پر گرم پانی کو لوٹے کے ذریعے انڈیلتے ہیں تاکہ جام ہونے جانے والی گیس گرم ہو کر توے تک پہنچ جائے۔اب اس نگری میں تو ایک بجلی ہی نہیں گیس کا مسئلہ بھی پٹرول کے مسئلے کی طرح روز بہ روز ناقابلِ حل ہے۔کس کس مسئلے کا رونا روئیں۔ ”اک روز کا رونا ہو تو رو کر صبر آئے۔ ہر روز کے رونے کو کہاں سے جگر آئے“