اقتصادیات: کلیدی مفادات

 حالات کی بہتری اُس وقت تک ممکن نہیں ہو گی جب تک ملک کا پیداواری شعبہ خاطرخواہ کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرتا یعنی قومی شرح نمو میں اِس حد تک اضافہ نہیں ہو جاتا کہ جس سے اپنے ہی وسائل سے ملکی ضروریات پوری ہونے لگیں اور برآمدات میں اتنا اِضافہ بھی ہو جو درآمدات کی ادائیگیاں کر سکے۔ فی الحال کوئی بھی ایسی قومی تحریک دکھائی نہیں دے رہی جس سے برآمدات میں بڑے پیمانے پر اضافہ یا اِس کا امکان نظر آئے لیکن برآمدات میں اضافے کا ہدف اپنی جگہ موجود ہے‘ جو ازخود حاصل نہیں ہوگا۔ قومی اقتصادی ترقی میں خاطرخواہ کامیابی نہ ہونے کے بعد پاکستان کو پرتعیش درآمدات میں کمی کے محاذ پر بھی ناکامیوں کا سامنا ہے۔ ٹوتھ پیسٹ سے لیکر گاڑیوں اور ادویات کے خام مال سے لیکر آئس کریم تک  درآمدی اشیا ء پر ’غیرضروری انحصار‘ کی وجہ سے قومی اقتصادی صورتحال میں بہتری باوجود کوشش و خواہش بھی نہیں ہو رہی! سمجھنا ہوگا کہ پرتعیش درآمدات غیر ملکی زرمبادلہ کے گرتے ہوئے ذخائر کا باعث ہیں۔ درآمدات بڑھنے و برآمدات سکڑنے کی وجہ سے پیدا ہونے والے چیلنج سے نمٹنے کے لئے ضروری ہے کہ ”اقتصادی ایمرجنسی“ کا اعلان کیا جائے‘ جس کا بنیادی نکتہ یہ ہونا چاہئے کہ پاکستان کے جاری اخراجات کا خسارہ جو بے مثال نقصانات کا باعث بن رہا ہے اُسے کم کیا جائے۔ تیئس جنوری کے روز ملک میں ’بجلی کی بندش (بریک ڈاؤن)‘ نے ”ہنگامی بنیادوں پر اقتصادی اصلاحات“ کی ضرورت کو اُجاگر کیا ہے تاکہ قومی سطح پر درپیش ”حقیقی چیلنجوں“ سے فوری طور پر نمٹا جا سکے۔ بجلی کے ترسیلی نظام میں تکنیکی خرابی اپنی جگہ لیکن جب ملک میں تاریکی پھیلی ہوئی تھی تو اُسی دوران مرکزی مالیاتی ادارے (سٹیٹ بینک آف پاکستان) نے شرح سود 17فیصد کرنے کا اعلان کردیا جو مہنگائی (افراط زر) کم کرنے کی ایک کوشش ہے اور سٹیٹ بینک کے مطابق مہنگائی کی شرح 30فیصد کے آس پاس ہے لیکن اگر عام آدمی کے نکتہئ نظر سے مہنگائی کو دیکھا جائے تو یہ 100 فیصد سے تجاوز کر چکی ہے اور اِس سلسلے میں صرف 3 ضروریات ِزندگی مثلاً آٹا‘ چینی اُور گھی کی قیمتیں تاریخ کی بلندترین سطح پر ہیں! اِن سبھی چیلنجنگ واقعات (قومی اقتصادی مسائل) جو تین شعبوں درآمدات و برآمدات میں فرق کی وجہ سے ہیں‘ بجلی کا بوسیدہ ترسیلی نظام و تکنیکی خرابیاں‘ جن کی وجہ سے کاروباری و صنعتی شعبہ اور معمولات زندگی متاثر ہیں۔ گیس و بجلی کا گردشی قرض بڑھ رہا ہے جبکہ شرح سود و مہنگائی میں بے مثال اضافے کی وجہ سے سرمایہ کاری نہیں ہو رہی۔ قومی ترجیحات کا ازسرنو تعین ہونا چاہئے۔ بنیادی سوالات یہ ہیں کہ موجودہ اقتصادی حالات میں اہم‘ انتہائی اہم اور اہم ترین امور (اقدامات) کیا ہونے چاہیئں؟ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے قرض کو دوست ممالک نے جس طرح اپنی امداد سے مشروط (نتھی) کر دیا ہے‘ یہ اِس بات کا ثبوت ہے کہ غیروں کی طرح اپنوں کو بھی پاکستان میں مالیاتی اصلاحات پر بھروسہ نہیں رہا۔ تو پہلی ضرورت کفایت شعاری اپناتے ہوئے قومی وسائل کی ترقی اور قومی وسائل پر انحصار کی ہے۔ ایک ایسی صورتحال میں جبکہ اقتصادی چیلنجز کی صورت سے مرض کی درست تشخیص ہو چکی ہے لیکن فیصلہ ساز قومی مرض کو غلط طریقہئ علاج سے درست کرنا چاہتے ہیں تو ایسی کوششوں کی کامیابی یقینی نہیں۔ ملک کی بگڑتی ہوئی اِقتصادی صورتحال کو ٹالنا جمہوریت اور برداشت پر مبنی افہام و تفہیم کے فروغ سے ہی ممکن ہے۔ پاکستان کی تیزی سے بڑھتی ہوئی معاشی بدحالی دو یکساں مسابقتی چیلنجوں کی وجہ سے ہے۔ پہلا چیلنج وسائل کی دائمی قلت ہے۔ اس مقصد کیلئے ٹیکس اصلاحات وقت کی ضرورت ہیں۔ دوسرا چیلنج ریاستی اخراجات میں کمی  کرناہے۔ اس کے ساتھ ساتھ قومی ترجیحات کے لئے قوم کو یک جان اور یک سو کرنے کے لئے جس عوامی اعتماد کی ضرورت ہے وہ مہنگائی کی شرح میں کمی لائے بغیر قائم (حاصل) نہیں ہو سکے گی۔