رشتے کااحساس (سید ابو یاسر)

 مشہور ادیب اور دانشور اشفاق احمد پچپن میں پیش آنے والے واقعات کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ہمارے بچپن کے زمانے کی بات ہے کہ ہمارے ماسٹر دولر صاحب ہوتے تھے وہ فرانس سے آئے تھے اور انہوں نے وہاں سے آکر سکول کھولا تھاانکی بیوی فوت ہوچکی تھی ایک بیٹی تھی جو بڑی اچھی خوش شکل تھی اور ساڑھی پہنتی تھی انہوں نے سکول کے پاس ایک خوبصورت سی گھاس پھونس کی ’جھگی‘(کٹیا) ڈالی ہوئی تھی ان کی ایک گائے تھی ہم جتنے بھی چھوٹے چھوٹے ٹینے سے جو سٹوڈنٹ تھے بہت سارے بچے ان کے پاس آتے تھے وہ ہمیں گانے بھی سناتے تھے ایک مرتبہ دلی میں ایک بہت بڑا سکول کھلا جسکا پرنسپل بھی انگریزہی مقرر کیاگیا اس پرنسپل کو آب وہوا راس نہ آئی تو وہ چلا گیا پھر دوسرا منگوایا گیا وہ بھی بیمار ہوگیا اور اسے پیچش لگ گئے‘ کسی نے وائسرائے کو رائے دی کہ آپ اگر ان(دولر صاحب) کو بلالیں تو وہ سکول چلاسکتے ہیں اس طرح ہمارے سکول میں ایک انگریز آگیا اور اس نے آکر ماسٹر صاحب سے پوچھا کہ آپ نئے سکول جانا چاہتے ہیں‘ ماسٹر صاحب نے کہا کہ But why اس طرح جھگڑا ہوگیا ہم اپنے چھپروں کے نیچے کلاسوں میں بیٹھے ہوئے تھے اس کی بیٹی بھی وہاں آگئی اس انگریز نے ماسٹر صاحب سے کہا کہ ہم آپ کو بہت رقم دینگے۔بہرکیف آخر کار ماسٹر صاحب نے اس سے کہا کہ میں تمہارے ساتھ جانے کو تیار ہوں لیکن پہلے میرا معدہ کھینچ کر اتنا بڑا کردو کہ اس میں وہ ڈھیر سارے پیسے سما جائیں جن کی تم آفر کررہے ہو‘ ماسٹرصاحب نے اس سے کہا کہ میں ان بچوں کو چھوڑ کر نہیں جاسکتا میں گاؤں گاؤں اور گھر گھر جاکر ان بچوں کو اکٹھا کرکے لایا ہوں اور اب میں ان کو ایک دم سے کیسے چھوڑ کر چلا جاؤں میں ایسا نہیں کرسکتا وہاں ایک گارڈر کو بجاکر اور ٹن ٹن کرکے ہمارے آنے اور جانے کی گھنٹی بجائی جاتی تھی لیکن جب تین دفعہ وہ گھنٹی بجتی تو وہ دولر صاحب کی آمد سے پہلے بجتی تھی جب وہ گھنٹی تین بار بجی تو ہم پریشان ہوگئے اور بھاگ کر باہر آگئے اور کھڑے ہوگئے دولر صاحب سب بچوں کو مخاطب کرکے کہنے لگے کہ میں تمہارا خادم ہوں ایک ظالم اور خونخوار آدمی آیا تھا جو مجھے تم سے چھین کر اپنے ساتھ لے جانا چاہتا تھا وہ تقریر کرتے ہوئے روبھی رہے تھے دولر صاحب نے کہا کہ اگر میں اپنی بیٹی کی بات مان کر یہاں سے چلا جاتا جو دلی جانے کی بڑی خواہش مندتھی تو نہ میں آپ سے مل سکتا نہ آپ مجھ سے مل سکتے جب وہ رو رہے تھے اور ہمیں بہت پیارے تھے تو ہم بھی ان کی ٹانگوں سے چمٹ کر رونے لگے ایک عجیب حال وہاں مچ گیا۔“ ا قتباس کا حاصل مطالعہ ایک استاد اور شاگرد کے درمیان رشتہ ہے جس کا احساس شاید اس زمانے میں دونوں طرف شدت کے ساتھ موجود تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس دور کے شاگرد اپنے استادوں کا جس احترام اور ادب کے ساتھ ذکر کرتے ہیں اس کی مثال آج کے دور میں کم ہی ملتی ہے۔