مگر ہم ہیں کہ ہمیں اپنی کارآمد چیزوں سے الرجی سی ہے۔جو بھی کام کی شئے ہو ہم اس کو پتھر مارتے ہیں او راٹھا کر زمین پرپٹخ دیتے ہیں۔اپنے ہی سرمائے کو خوب رجھ کر تباہ کر دیتے ہیں۔کاش ہم یہ ذرا سی بات سمجھ لیں تو کبھی ایسا نہ ہو۔سینما میں فلم دیکھنے جائیں گے تو وہاں فلم دیکھ کر اٹھیں تو اپنی ہی کرسی کی ریکسین کو بلیڈ کے ساتھ چیر کر واپس آ کر رہیں گے۔بس میں بیٹھیں گے تو جہاں براجمان رہے اس سیٹ کو کاٹ کر اپنے بس سٹاپ پر چپکے سے اتر جائیں گے۔کسی باغ میں گئے تو وہاں جیب سے چاقو نکال کر درختو ں کو چھیلیں گے او روہاں اپنانام لکھ کر آجائیں گے۔ان کو اگر یہ سچے دل سے معلوم ہوجائے کہ یہ تو ہماری اپنی چیزیں ہیں ہم بھلا کیوں ان کو نقصان پہنچا کر خراب کردیں تو جس دن ہمیں احساس ہو اس دن سے اگلا دن ہماری کامیابی کے سفر کا ابھی آغاز ہی ہوگا۔ایک قوم کی حیثیت سے جو ہمارے فرائض ہیں ہم ان کوسمجھتے نہیں ہیں۔ہم بس اپنے حقوق کا خیال کرنا جانتے ہیں اور حقوق کو بھی تو چھین کر لینے کی کوشش کرتے ہیں۔یہاں تو ہر آدمی کو بس اپنے حقوق ہی کا خیال ہے۔اپنے فرض کو نہیں پہچانتے کہ حقوق کے ساتھ ہمارے کچھ فرائض بھی ہیں۔ہم نے کبھی اپنے فرائض کو جانا نہیں اپنی حقوق کوزبردستی لینے کے منشور پر کام کرتے ہیں۔اگر ہم اپنے فرائض کی ادائیگی پر کمر باندھ لیں تو اپنے حقوق بنا مانگیں خود بخود ملنا شروع ہو جائیں گے۔ حقوق وفرائض میں تھوڑا سا فرق ہے جس کو سمجھنا ہوگا۔ اگر فرض ادا ہوا تو حقوق آپ سے آپ ہماری جھولی میں پکے ہوئے پھل کی طرح آن کر گرنے لگیں گے جن کے لئے ہمیں کسی کے ساتھ کوئی زبردستی نہیں کرنا پڑے گی۔وہاں ایک گھرسے دو جوان لڑکے برآمد ہوئے ان کے ہاتھوں میں دو پلاسٹک کی بالٹیاں تھامی ہوئی تھیں۔جن میں دنیا جہان کا کوڑا کرکٹ پڑا ابل رہا تھا۔ انھوں نے آگے بڑھ کر پاس کی سوکھی ہوئی نہر میں گرا دیا۔یہ وہ نہر ہے کہ جس کا پانی 10جنوری کو بند کیا گیاتھا۔ بس سمجھو کہ ان دنوں یہ نہر کوڑے کا ایک بہت بڑا ڈھیر بن چکی ہے۔کیونکہ پندرہ دن ہو ہی گئے ہیں کہ اس میں رواں دواں پانی روکا گیا تھا۔وہ اس لئے کہ نہروں کی صفائی کا کام شروع ہونے والا ہے۔مگر یہ کب سٹارٹ ہو گا اس بارے میں راویوں کے لبوں پر چپ کی مہر لگی ہوئی ہے۔ وہ اپنے ہونٹوں پہ لگے چپ کے تالے توڑ نہیں رہے ہیں۔یہ خشک نہر کتوں کا من بھاتا مقام ہے۔جہاں قریب کے کونوں کھدروں سے یہ حیوان آ کر اپنا رزق تلاش کرتے ہیں۔نہر چونکہ گند سے بھری ہوتی ہے۔اس لئے یہاں پانی کی گنجائش بہت کم ہے۔سو وہ تھوڑا سا پانی جو نہر اپنے دامن میں سما لیتی ہے زیادہ ہوجانے پر کناروں سے اچھال کرسڑک پر تالاب سا بنا دیتی ہے۔یہ بل کھاتی ہوئی نہر پورے شہر میں کہیں سے کہیں ہلتی جلتی پہنچ گئی ہے۔مگر اس کے کناروں کے مکین اس کی اہمیت اورافادیت سے آگاہ نہیں ہیں۔ کیونکہ یہ لوگ اس کو گند گرانے کا بہترین مقام سمجھتے ہیں۔ چونکہ ان کا ڈالا ہوا بیشتر گند تو اس نہر کے پانی کا ریلہ اپنے ساتھ بہا کر آگے لے جاتا ہے۔اس لئے اب یہ نہر چونکہ پانی سے خالی ہوگئی ہے سو اس میں سے تعفن اور بدبو اور سنڈاس خوب لبالب بھرے ہیں۔اب پانی کے رک جانے سے اس نہر میں لوگوں کے ڈالے ہوئے گند کو آگے لے جانے کی صلاحیت زنگ آلود ہو کر ضائع ہو چکی ہے۔اب پانی رواں ہو جائے۔مگرکب ہو تاکہ گند جو پڑا نظر آتا ہے او ربدبو کا کارن بنتا ہے نہ بنے۔اس نہر کی کتنی سہولت ہے۔جہاں جہاں سے نہر گزرتی ہے وہاں کے قرب و جوار کے کھیتو ں کو اس سے پانی ملتا ہے اور نہری پانی کا انتظام خوب بھلے سے چلتا رہتا ہے۔کھیتیاں سیراب ہو تی ہیں۔میں ان دو لڑکوں کو دیکھ کر حیرت کے دریا میں ڈوبنے لگا تھا کہ ان کو ذرا سی لاج نہ آئی اور نہ ہی ان کو کسی احساس ِ جرم نے آن ستایا۔