سٹیٹ بینک آف پاکستان نے تئیس جنوری (دوہزارتیئس) کے روز ”مانیٹری پالیسی بیان“ میں امریکی ڈالر کے مقابلے پاکستانی روپے کی قدر (ایکس چینج ریٹ) میں لچک سے متعلق کہا گیا کہ ”کرنسی کی اوپن مارکیٹ میں جس نرخ پر ڈالر دستیاب ہے وہ قیاس آرائی کی وجہ سے زیادہ ہے۔“ ایک اندازے کے مطابق ڈالر کی قدر میں اضافے سے ضرب صرافہ مارکیٹ اور بینکوں نے ایک سو ارب روپے کا منافع کمایا جس سے متعلق حکومت نے سخت کاروائی کا عندیہ دیا لیکن کسی بھی بینک کے خلاف تاحال کاروائی نہیں کی گئی شاید اِس کی وجہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ نویں جائزہ مذاکرات ہوں‘ جن کی تکمیل کے بعد قیاس آرائی اور سٹہ بازی کرنے والوں کو سزا دی جائے گی۔ اُمید یہ بھی ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے سے قرض کی قسط ملنے اور دوست ممالک کے وعدے ایفا ہونے پر پاکستانی روپے میں استحکام آئے گا تاہم واضح نہیں کہ آیا آئی ایم ایف جاری ایکس چینج لچک کی پالیسی کو مؤخر کرنے پر رضامند ہوگا یا نہیں کیونکہ اِس کی وجہ سے ڈالر کی طلب اور رسد میں فرق ہے۔ گورنر سٹیٹ بینک کا یہ بیان کہ قرض دہندگان کی جانب سے ڈالر جاری ہونے کے بعد روپیہ مستحکم ہوجائے گا‘ بلاشبہ یہ مالیاتی بندوبست کا تشویشناک پہلو ہے کیونکہ ماضی میں بھی قرض حاصل کر کے زرمبادلہ کے ذخائر کو بہتر بنایا گیا تھا اور اگر ایک مرتبہ پھر روپے کو سہارا دینے کے لئے بیرونی قرضوں کے ذریعے زرمبادلہ کے ذخائر پر انحصار کیا جاتا ہے تو اِس معیشت کی بہتری کے اہداف حاصل نہیں ہوں گے۔ ملک کی’زری پالیسی کمیٹی‘ نے شرح سود (ڈسکاؤنٹ ریٹ) کو سولہ فیصد سے بڑھا کر سترہ فیصد کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو ملکی معیشت کی مایوس کن صورتحال کا عکاس ہے۔ مہنگائی (افراط زر) کے وسیع دباؤ پر اگر قابو نہ پایا گیا تو توقع سے زیادہ عرصے تک افراط زر میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ آئی ایم ایف کا ہر پروگرام کفایت شعاری کی ضرورت پر زور دیتا ہے لیکن سمجھنا ہوگا کہ مہنگائی کا اثر آمدنی کے لحاظ سے ملک کے نچلے طبقے پر ہے اور اگر ’آئی ایم ایف‘ سے قرض مل بھی جاتا ہے تو اِس سے معاشی منظر نامے یا مہنگائی کی شرح میں کوئی خاص تبدیلی (کمی) نہیں آئے گی۔ افراط زر‘ کفایت شعاری‘ مالیاتی نظم و ضبط اور دیگر معاشی عوامل کا ایک دوسرے سے گہرا تعلق ہے اور اس تناظر میں مربوط اقدامات کی ضرورت ہے۔ اِس لئے آئی ایم ایف سے قرض یا شرح سود میں اضافے جیسے معیشت بچانے کے اقدامات سے کے اثرات عام آدمی تک منتقل کرنا ہی سب سے اہم ہے۔ مالیاتی ایڈجسٹمنٹ کے تحت ہونے والی جملہ اصلاحات بشمول شرح سود میں اضافے سے فائدہ اٹھانے کے عمل میں عام شہریوں کو ترجیح دینا ضروری ہے۔