ریڈیو کی نشاۃ ثانیہ کب ہوگی؟

.

یہ کہنا درست نہیں کہ ٹیلی وژن کے عالم وجود میں آ نے کے بعد ریڈیو کی وقعت کم ہوئی ہے بی بی سی ریڈیو کی مثال لے لیجے گا  انگلستان میں ٹیلی ویزن کے آ جانے کے بعد بھی بی بی سی ریڈیو کی اہمیت میں کسی لحاظ سے بھی کمی واقع نہیں ہوئی بلکہ بی بی سی ریڈیو  سے روزانہ براڈکاسٹ ہونے والا ایک پروگرام جس کا نام today ٹوڈے ہے  انگلستان میں  سب سے زیادہ سنا جانے والا پروگرام شمار کیا جاتا ہے ہمارے ہاں ریڈیو کا اجراء 1930میں غیر منقسم ہندوستان میں ہوا‘یہ1930 ء کی دہائی میں ہوا‘ اس وقت اس کا نام آل انڈیا ریڈیو تھا غیر منقسم ہندوستان میں اس وقت جو ریڈیو سٹیشن کھولے گئے ان میں  پشاور کا ریڈیو سٹیشن بھی شامل تھا‘ ابتداء میں اسے پشاور سیکرٹریٹ کی پرانی بلڈنگ کے  ایک کمرے میں ایک چھوٹا  ٹرانسمیٹر نصب کر کے  1935 ء میں سٹارٹ کیا گیا تھا ماضی قریب میں جب  سکرٹریٹ کی نئی عمارت بنائی جا رہی تھی   تو اسے گرا دیا گیا کاش کہ اس پرانی عمارت کے اس کمرے کو ہی محفوظ کر لیا جاتا تو کتنی اچھی بات ہوتی  اس ضمن میں دلچسپ بات یہ  ہے کہ 1930 ء میں لندن میں ہونے والی گول میز کانفرنس میں شرکت کے لئے جب اس وقت کے این ڈبلیو ایف پی کے صاحبزادہ عبدلقیوم  لندن گئے تو وہاں پر ریڈیو کے خالق مارکونی سے ان کی ملاقات ہوئی جس کے دوران انہوں نے ان سے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا کہ پشاور میں ریڈیو ٹرانسمیٹر کو نصب کر کے وہاں سے ریڈیو کی نشریات شروع کی جائیں چنانچہ ان کی اس خواہش کے احترام میں پشاور سے ریڈیو کی نشریات کا اہتمام کیا گیا‘ پشاور ریڈیو سٹیشن کے کئی براڈکاسٹرز نے بعد میں برصغیر کی  فلمی دنیا میں بطور آرٹسٹ نام کمایا جیسا کہ  پرتھوی راجکپور‘آغا طالش‘اسی طرح ریڈیو پاکستان حیدرآباد اور کراچی نے محمد علی مصطفےٰ قریشی اور ابراہیم نفیس جیسے معروف صداکار اور اداکار پیدا کئے بالفاظ دیگر ریڈیو کا ادارہ کئی اداکاروں کی نرسری بھی تھا اس وقت پورٹیبل portable ریڈیو ٹرانزسٹر اتنا سستا ہے کہ وہ وطن عزیز کے ہر باسی کی قوت خرید کے اندر ہے‘کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اس ابلاغ عامہ  کے ذریعے عام آدمی تک حکومت کی رسائی بڑی سہل ہے اور اس کے ذریعے اچھے پروگراموں کو براڈکاسٹ کر کے نہ صرف زندگی کے مختلف شعبوں میں عوام کی رہنمائی کی جا سکتی ہے‘ پاکستان کے خلاف اس کے دشمنوں کے مذموم پراپیگنڈے کا جواب بھی دیا جا سکتا ہے‘ کسی زمانے میں ریڈیو پاکستان کی ایکسٹرنل سروس بھی ہوتی تھی جس کے توسط سے مختلف زبانوں میں اس پراپیگنڈے کا جواب دیا جاتا تھا جو وطن عزیز کے دشمن اس کے خلاف کیا کرتے تھے قصہ کوتاہ اس کثیر المقاصد نشریاتی ادارے کے ساتھ نہ جانے کافی عرصے سے ایساسلوک کیوں کیا جا رہا ہے؟۔