(روزنامہ آج میں شائع ہونے والے کالم جو اپنی اشاعت پر قارئین نے بے حد پسند کئے، ان سدا بہار کالموں سے انتخاب کا سلسلہ قارئین کی دلچسپی کے لئے شروع کیا گیا ہے‘ ان کالموں میں اعدادوشمار اور حالات کالم کی تحریر کے وقت کی عکاسی کرتے ہیں).................
اس روز،لاہور کے دل پہ کیا شام اتری تھی کہ سبھی خراماں خراماں ”وطن دوست طریقت“ کے ڈیرے کی طرف جارہے تھے۔جی ہاں یہ ڈیرہ، ادب کے سنجیدہ احباب کے لئے ایک گوشہ عافیت کی طرح ہے۔بشریٰ رحمن اس کی میزبان ہوتی ہیں اوریہاں ہر قسم کے تعصبات سے بالاتر ہر ماہ کوئی نہ کوئی ادبی اکٹھ ہوا کرتا ہے۔ کوئی تخلیق کار بیرونِ ملک سے تشریف لائے یا کسی کی نئی کتاب شائع ہو،اعزاز پائے،وطن دوست طریقت میں مدعو کر لیا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسی ہی نشست تھی جس میں بھارت سے معروف شاعر کیول دھیر تشریف لائے ہوئے تھے۔کیول دھیر سے ہمارا ایک ”تخلیقی“رشتہ ہے جو اظہر جاوید مرحوم کے ادبی جریدے ”تخلیق“ سے شروع ہوا تھا۔اگر چہ اظہر جاوید صاحب کے جانے کے بعد تخلیق ان کے صاحب زادے شائع کر رہے ہیں مگر وہ پہلی سی بات کہاں شائع ہوتی ہیں‘اب تو تخلیق کے پروگراموں میں ایسے لوگ بھی مدعو کر لئے جاتے ہیں جنہیں اظہر جاوید نے کبھی منہ نہ لگایا یا جو لوگ اظہر جاوید کو کسی نہ کسی طرح اذیت پہنچاتے رہے۔خیر یہ تو ایک جملہ معتر ضہ تھا بات ادب دوست طریقت کی ہورہی تھی جہاں سبھی جینوئن تخلیق کاروں کو ہمیشہ خوش آمدید کہا جاتا ہے۔وہ ایک عجیب شام تھی جس میں غزلیہ موسیقی کی تانیں بھی چھڑیں۔خلیل حیدر ایک میٹھی اور مدھرآواز والا ایسا فنکار ہے کہ وہ غزل کے ہر لفظ کے رنگ کو مدِنظر رکھ کر ادا کرتا ہے۔اس کی پہچان ناصر کاظمی کی غزل بنی
نئے کپڑے بدل کر جاؤں کہاں.... اور بال بناؤں کس کے لئے‘ اگر چہ یہاں بھی یہ غزل پیش کی گئی مگر بشریٰ رحمن کی تخلیق کردہ غزل کی دُھن نے محفل کو چار چاند لگا دیئے۔خلیل حیدر نے اس شام ان کی جو غزل پیش کی، اس میں شاعرہ کی زندگی سمٹی نظر آتی ہے۔مطلع دیکھیں:
اپنے ہونے کی سزا میں نے بہت پائی ہے
میری شہرت ہے کہ جیسے میری رسوائی ہے
یوں تو ہر شہر میں کچھ لوگ مجھے جانتے ہیں
میری بچپن کی سہیلی مری تنہائی ہے
ایک اداس سی دھن میں جب یہ غزل پیش کی جارہی تھی تو ساری محفل میں ایک عجیب رقت طاری ہوگئی تھی۔بعدمیں خلیل حیدر نے پروفیسر حسن عسکری اور بندہ ناچیز کی غزل بھی پیش کی مگر بشریٰ رحمن کی غزل کی موسیقی نے سب کو اپنے حصار میں لئے رکھا۔اس نشست کی صدارت ادبی جریدے الحمراء کے مدیر اور نہایت وضع دار انسان شاہد علی خان نے کی۔مہمان گرامی میں امریکہ سے تشریف لائے جاوید سید اور پروفیسر حسن عسکری شامل تھے۔بشری رحمن نے کیول دھیر کے حوالے سے گفتگو کا آغاز کیا۔پاکستان اور بھارت کے ادبی مسائل زیر بحث آئے اور محفل میں سبھی نے اپنی اپنی رائے کا اظہار کیا۔کوئی کتاب مہنگی ہونے پر شکوہ کناں تھا تو کوئی کتابوں کو دو نوں ممالک کے درمیان بذریعہ ڈاک بھیجنے پر مہنگی ٹکٹوں کی بات کر رہا تھا۔کیول دھیر نے بتایا بھارت میں اردوپڑھنے والی نسل ختم ہوا چاہتی ہے۔نئی نسل اردو سکرپٹ سے نابلد ہے۔یہی وجہ ہے کہ بھارت سے شائع ہونے والا ایک اردو اخبار جو کبھی لاکھوں میں شائع ہوتا تھا اب اس کی اشاعت پچیس ہزار پر آگئی ہے۔اردو رسم الخط میں شائع ہونیوالی کتب پڑھنے والے بھی بہت کم رہ گئے ہیں‘اگر چہ بھارتی حکومت،اردو کے فروغ کیلئے کئی ادبی تنظیموں اور اکادمیوں کو سرکاری فنڈ مہیاکر تی ہے اور اچھی کتب پر ایوارڈ بھی دیئے جاتے ہیں مگر پھر بھی نتائج اتنے اچھے نہیں ہیں۔ کتابوں کے میلے اور ادبی کانفرنسوں میں پاکستانی اہل قلم بھی مدعو ہوتے ہیں مگر دونوں ممالک میں کتاب کی ترسیل بہت مہنگی ہے۔