روپے کی پرواز

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے ”انتہائی ضروری“ قرار دیئے جانے والا قرض حاصل کرنے کیلئے پاکستانی روپے (کرنسی) پر حکومتی کنٹرول ’نرم‘ کر دیا گیا ہے جس کی وجہ سے‘ اوپن مارکیٹ میں‘ ایک کاروباری دن کے دوران‘ روپے کی ڈالر کے مقابلے قدر میں قریب دس فیصد (9.6فیصد) کمی ہوئی اور روپیہ 255.43 کی ریکارڈ نچلی سطح پر آگیا جبکہ ستائیس جنوری کے روز کاروباری دن کے آغاز پر فی ڈالر 260 روپے کے عوض تبادلہ ہوا۔ انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کے مقابلے میں مقامی کرنسی کی قدر میں قریب پچیس (24.54) روپے جیسی غیرمعمولی کمی دیکھی گئی ہے‘ جو سال اُنیس سو ننانوے میں ’نئے ایکس چینج ریٹ سسٹم‘ کے نفاذ کے بعد کسی ایک کاروباری دن ہونیوالا سب سے بڑا ’خسارہ‘ ہے۔پاکستانی روپے کی قدر میں ’زبردست گراوٹ‘ کے مثبت پہلو بھی ہیں جن کا ذکر کرتے ہوئے سرمایہ کار اور کاروباری طبقات سمجھتے ہیں کہ ایک بار ڈالر کی قیمت کا درست تعین کر دیا جائے اور درآمدات پر عائد غیراعلانیہ پابندی ختم کی جائے تو اِس سے مارکیٹ میں استحکام آئے گا اور عوام میں پائی جانے والی اضطرابی کیفیت بھی دور ہوگی۔ آئے روز ڈالر کی قیمت میں کمی سے ناجائز منافع خور فائدہ اُٹھا رہے ہیں اور وہ قیمتوں میں ازخود (من چاہے) اضافے کو ڈالر کی قیمت سے جوڑ کر پیش کرتے ہیں۔ پاکستانی روپے کی قدر انتہائی ضروری اور اصلاح طلب معاملہ ہے جو صحیح سمت میں اور طویل انتظار کے بعد اُٹھایا گیا اقدام قرار دیا جا رہا ہے۔ سرمایہ کار اس اقدام پر پرجوش ہیں کیونکہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان نے ’آئی ایم ایف‘ کے آزاد روپے کے مطالبے کو کسی حد تک اور غیراعلانیہ قبول کر لیا ہے‘اب بیل آؤٹ کیلئے تعطل کا شکار جائزہ مذاکرات کی بحالی کی راہ ہموار ہو گئی ہے جس سے اربوں ڈالر کی مدد مل سکتی ہے حیرت انگیز طور پر ڈالر کی قیمت بڑھنے کو کرنسی کی ’بلیک مارکیٹ‘ نے تیزی سے قبول کیا ہے اور اِسے زیادہ حقیقت پسندانہ سرکاری شرح تبادلہ قرار دیا جا رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ’بلیک مارکیٹ‘ ڈالر کی خرید و فروخت میں کمی دیکھی گئی ہے جو خوش آئند ہے پشاور کی ضرب صرافہ مارکیٹ کے ایک کرنسی ڈیلر کے بقول ”اِس اقدام کو مصنوعی قیمت کی حد ختم کرنے کی توثیق کے طور پر دیکھا جانا چاہئے“ بنیادی سوال یہ ہے کہ جب پاکستان کی معاشی صورتحال خراب ہے اور وسائل کی کمی بھی ہے تو آئی ایم ایف کی سخت شرائط کو ماننے سے کس قدر معاشی مسائل کا خاتمہ ہوگا؟ یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ اگر ’آئی ایم ایف‘ کی شرائط ماننا ہی تھیں تو پھر اِس قدر تاخیر کیوں کی گئی؟ بروقت فیصلوں سے برآمد کنندگان کے پاس موجود بیرون ملک ہارڈ کرنسی واپس لائی جا سکتی تھی اور بیرون ملک مقیم پاکستانی مجبوراً ترسیلات زر کیلئے ’بلیک مارکیٹ‘ کا رخ بھی نہ کرتے بہرحال اب حالات یہ ہیں مالیاتی خسارے اور معاشی مشکلات پر قابو پانے کی حکمت عملی وضع کی جائے‘ کفایت شعاری اپنائی جائے‘ گردشی قرض ختم کیا جائے تاکہ اربوں ڈالر پھر سے تحلیل نہ ہو جائیں‘ڈالر کی روپے میں قدر کا تعین مارکیٹ کو دینا خوش آئند اقدام قرار دینے والے اِس سے جڑی مہنگائی کو خاطرخواہ توجہ نہیں دے رہے مرکزی بینک نے مارکیٹ کے بنیادی اصولوں کی بنیاد پر شرح تبادلہ آزاد کیا ہے تو اِس کے ساتھ روپے کی نقل و حرکت کو بھی محدود کیا گیا ہے جس کی وجہ سے بلیک مارکیٹ میں لین دین کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔ وقت کے ساتھ اوپن مارکیٹ ریٹ انٹر بینک ریٹ کے قریب آنے کی توقع ہے جس سے برآمد کنندگان فائدہ حاصل کریں گے اور بیرون ملک رکھے یا چھپائے ہوئے ڈالر وطن واپس لائیں گے۔ اِسی طرح بیرون ملک مقیم پاکستانی بھی اپننی ترسیلات زر پھر سے ’بینکنگ چینلز‘ کے ذریعے کرنا شروع کریں گے کیونکہ اب اُنہیں فی ڈالر زیادہ روپے ملیں گے چونکہ آزادانہ طور پر تیرتا ہوا روپیہ آئی ایم ایف کے نویں جائزے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھا‘ جو کہ دور ہو گئی ہے تو بیل آؤٹ پروگرام کی بحالی اور دوست ممالک کی فنڈنگ سے پاکستان کی دوطرفہ اور تجارتی فنانسنگ تک رسائی میں بہتری آنے کی اُمید ہے۔ طویل مدت میں مارکیٹ پر مبنی شرح تبادلہ بھی بیرونی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرے گی جس سے پاکستان کی معیشت کو موجودہ معاشی بحران سے نکلنے میں مدد ملے گی۔ اِس وقت معیشت پر صرف سیاست ہو رہی ہے۔ عام انتخابات ’ڈیجیٹل مردم شماری‘ کے بعد کرنے کے حکومتی فیصلے کے بعد سال کے آخر میں عام انتخابات کے امکانات اِس لئے بھی روشن ہیں کہ اِس عرصے (دس یا گیارہ ماہ) کے دوران معاشی بہتری کے ساتھ مہنگائی میں کمی کی صورت عوام کو ریلیف بھی دیا جا سکتا ہے۔ اصلاح کی کڑوی گولی سے اگر ’معیشت کو میٹھا‘ کیا جا سکتا ہے تو اِس امکان کو بھی موقع ملنا چاہئے۔ جو بھی ہو ’آدھے اصلاح اور آدھے اقدامات‘ نہیں ہونے چاہیئں بلکہ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے لئے ضروری تمام تکلیف دہ معاشی اصلاحات کو نافذ کر کے قومی معاشی مستقبل محفوظ بنانا وقت کی ضرورت ہے غیر بجٹ سبسڈیز کو یا تو ختم کرنا پڑے گا یا آمدنی کے نئے ذرائع پر انحصار کرتے ہوئے مالی اعانت فراہم کرنا پڑے گی۔ پاکستان رواں مالی سال کے اختتام پر جو پرائمری سرپلس واپس کرنے کے لئے پرعزم ہے وہ بھی اپنی جگہ انتہائی ضروری ہے۔ حکومت کے پاس آمدنی کے نئے ذرائع کی تلاش کے علاؤہ چارہ نہیں رہا۔ دیکھنا ہے کہ مشکلات آسان کرنے کیلئے مشکل فیصلے کس طرح لاگو کئے جاتے ہیں جبکہ معاشی کارکردگی ہی حکمراں اتحاد کے سیاسی مستقبل کا تعین کرے گی۔