اچھی خبریں 

نیٹ پر یو ٹیوب والے اس منتشر صورتِ احوال سے فائدہ اٹھا کر اپنے چینل کومزید پھیلا رہے ہیں اول فول  خبروں کو چیونگم کی طرح کھینچ کر اور اس کے غبارے بنا کر مزہ لے رہے ہیں۔ملکی صورتِ حال کی نزاکت سے ناجائز فائدہ لے کر عوام کو مزید بیوقوف بنایا جا رہا ہے۔ڈراتے دھمکاتے ہیں کہ یہ ہو جائے گا اور وہ ہو جائے گا۔فلاں ملک نے کسی خاص ادارے نے امداد دینے سے انکار کر دیا ہے۔یہ ہو رہا ہے وہ ہو رہاہے‘خواہ دوسرے پر جو بھی گزر جائے‘ان کو اس سے سروکار نہیں کہ حالات اگر خراب ہیں تو کیاہواحالات بہتر بھی تو ہو جاتے ہیں۔سدا رہنے والا اگر حسن نہیں نہ دولت ہے اور نہ ہی اچھے حالات ہیں تو سدا باقی نہ رہنے والے برے حالات دن بھی تو ہیں۔جو کل تھا وہ آج نہیں جو آج ہے وہ کل نہیں ہوگا اگر قسمت سے حالات کی روانی میں رکاوٹیں پیش آ رہی ہیں تو کوشش سے یہی رکاوٹیں اوپر جانے کیلئے سیڑھیاں ثابت ہوں گی۔پہلے تو عام آدمی کو خبروں ہی کے ساتھ دلچسپی نہ تھی‘ملکی معیشت کیساتھ ہمارا کیا لینا دینا ڈالر اوپر جاتا ہے توجائے ہمارا کیاہے‘ ان کو اچھی خبریں تو کیا آڑھی ترچھی خبروں کے ساتھ بھی کوئی واسطہ نہ تھا اپنا مزے سے جی رہے تھے کھایا پیا اور یاروں دوستوں سے ملے‘مگر اب تو انہی بے پروا بلکہ لا پروا لوگوں کو زندگی نے خود گزارنا شروع کر دیا ہے اب تو ان کی چیخیں نکل گ ئی ہیں انکو لگ پتا گیا ہے کہ زندہ رہنا کسے کہتے ہیں۔خاص طور پر ہمارے ہاں کی زندگی کی گزران ازحد دشوار ہو چکی ہے۔پہلے کہتے تھے زندگی دشوار ہوئی جاتی ہے مگر اب تو صورتِ حال نازک سے نازک تر ہوئی جاتی ہے۔اخبار اٹھا کر دیکھو یا ٹی وی کی خبریں دیکھو اور ریڈیو سنو عالمی میڈیا کی آواز پر کان دھرو ہر طرف خطرے کے سائرن بجتے ہوئے سنائی دیتے ہیں۔کوئی اچھی خبر ان دنوں آئے یہ ناممکن ہو چلا ہے‘غریب غرباء تو اندراندر اپنے آپ کو کاٹ کھانے لگے ہیں۔ان کی چیخیں اور چار آنسو بہانا ان کی چاردیواروں کے بیچ کون سنے کون دیکھے۔ہر ایک کو بس اپنی پرواہے کہ میرا کچھ ہو جائے میرا معاملہ حل ہو میرے مسائل دور ہو جائیں دوسرے کا کام سر کھائے۔ اب تو عام آدمی کوبھی زندگی کے معاملات کے ساتھ دلچسپی ہونے لگی ہے۔وہ بھی ملک کی سلامتی کیلئے دل سے پریشان ہے۔پہلے اب صرف اپنے لئے دعائیں ہوتی تھیں اب انکی دعاؤں میں ملکی حالات کی ابتری کو بہتر بنانا بھی شامل ہے عام آدمی کو بھی معلوم ہے کہ تیز و طرار ڈالر کی آسمانی پرواز کتنی اونچی جا رہی ہے۔ایک ہی دن میں ڈالر کی چھلانگ دیکھنے لائق نہیں۔جیسے ہمسائے کا مرغا اپنے گھر میں اڑ کر آجائے اور کچن کے اندرنازک برتنوں کی جالی اور دوسرے سازو سامان کے پاس کھڑا رہ جائے۔ پھر اس کو پکڑنے کیلئے ہاتھ بڑھائیں تو وہاں وہ ہاہاکار مچے کہ اس کے پروں کے پھڑپھڑانے سے اور مزیدچھلانگیں لگانے سے برتن سے برتن بجنے لگیں اور سب سامان کا ستیاناس ناس ہو جائے۔یونہی آج کل عالمی منڈی میں تیل اور ڈالر کے عنوان سے جو دکھ درد اورپریشانیاں ہمیں حاصل ہیں شاید ہی اورکسی کو دستیاب ہوں۔ گذشتہ روز کی قیمتوں کا رونا رو کر سوجائیں اوردوسرے دن صبح آنکھ کھلے تواخبارمیں نرخ مزید اونچے چلے گئے ہوں‘سازو سامان کے نرخ آسمان پر پہنچ گئے ہیں۔گھر سے کسی عام سی ٹافی کی فرمائش ہوئی کہ وہی لانا اور نہ ملے تو کوئی اور مت لاؤ۔ یہ وہ ٹافی ہے کہ ہم ایک روپے کی پندرہ خرید کر کھاتے تھے۔بڑے سٹور والے نے کہاباقی تو موجودہیں یہ ٹافیاں شارٹ ہیں۔ میڈیسن کا تو سناکہ شارٹ ہیں اب ٹافیاں بھی شارٹ ہو نے لگیں۔یہ چوتھا سٹور تھا”ساقی تیرے کرم پہ بہت ناز تھا ہمیں۔ ناکام جا رہاہوں مقدر کی بات ہے“ گھرسے برقی مراسلہ کا نشان موبائل سکرین پر دھڑکاکہاں ہو۔ جواب دیا ٹافیاں ڈھونڈ رہا ہوں نہیں مل رہیں۔جواب ملا سر کھائیں جلدی واپس آؤ‘جب دو ایک دنوں کے بعد دوبارہ سپر سٹور پہنچا۔ سوچا اب دو دو چار دانے کیا لوں بس ڈبہ ہی لے لوں گا‘ اس میں ہزار ٹافیاں تو ہوں گی۔ قیمت پوچھی تو ایک سو ستر روپے‘ پوچھا اس میں کتنی ٹافیاں ہیں انہوں نے جواب دیا اس میں ساٹھ ٹافیاں ہیں۔یہ تین روپے میں اور سائز میں انتہائی چھوٹی ہے تو اچھے والی ٹافیو ں کی قیمت کیا ہوگی۔ہم حیران ہو ئے کہ اب بیرونی کرنسی ہماری زندگی میں کس طرح انتشار پھیلا رہی ہے۔