مشہور ادیب اور دانشور اشفاق احمد اپنی یادداشتوں میں لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ گاؤں میں منادی ہوئی کہ ایک تصویر ہے جو بولتی بھی ہے ہم سب بے چین تھے کہ اسے دیکھیں اعلان کیاگیا کہ ریلوے سٹیشن کے قریب بڑے میدان میں وہ بولتی اور حرکت کرتی تصویریں دکھائی جائیں گی چنانچہ وہاں پر ایک بہت بڑا پروجیکٹر لگا دیاگیا وہ نہایت بھدی قسم کا تھا اس پر وہ ریل چڑھائی گئی اور ایک آپریٹر بڑے شہر سے منگوایا گیا اسکے پانچ چار اسسٹنٹ تھے وہاں سے دور ایک جنریٹر لگا کر اور اس کی تاریں پھینک کر بجلی کا بندوبست کیاگیا اور سامنے سکرین تانی گئی ہمارا سارا قصبہ‘عورتیں بچے بوڑھے ’منجیاں‘ چار پائیاں ڈال کر وہاں بیٹھے ہوئے تھے جب اس سکرین کے اوپر تصویر نظر آتی تھی تو وہ واقعی بولتی تھی اوراس تصویر کا نام تھا ’لیلیٰ مجنوں‘ ان حرکت کرتی تصویروں میں ایک لڑکی لیلیٰ تھی اور ایک لڑکا مجنوں تھا‘ جسے لوگ پتھر مار رہے تھے اور ہم حیرانی سے دیکھ رہے تھے اس کے بیچ میں گانے بھی آتے تھے وہ ریل (فلم کا فیتا) دس منٹ کے لئے چلتی تھی اور پھر اس کو بدلا جاتا تھا اور اسے بدلنے میں تقریباً آدھ گھنٹہ صرف ہوتا تھا‘سارے شائقین وناظرین پھر اپنے منہ سکرین کی بجائے پیچھے پڑے پروجیکٹر کی طرف کرلیتے تھے اور ریل بدلنے کے منظر کا بھی بڑا مزہ تھا آدھ گھنٹے کا یہ تماشا دیکھنا اور پھر دس منٹ کا سامنے سکرین پر تماشا دیکھنا اب اس میں آپ کو جو ضروری بات بتانے لگا ہوں‘ وہ یہ کہ وہاں سنسر شپ باقاعدہ طور پر توتھی نہیں لیکن ہمارے ذیلدار گرونام صاحب انہوں نے سنسر کا بندوبست کیا تھا تاکہ لوگوں کے اخلاق پر برا اثر نہ پڑے وہ پیتل کی ایک گاگر(گھڑا نما برتن) اور ہاکی لے کر وہاں کھلے میدان میں موجود تھے اور جب کوئی ایسا سین آتا تھاجس میں لیلیٰ مجنوں کے قریب ہوجاتی تھی اور گانا گانے لگتی تھی تو ذیلدار صاحب گاکر بجاتے تھے اور ان کے گاکر بجانے کی ڈناڈن ڈن ڈن ڈنر۔۔ کی آواز پورے مجمعے میں سنی جاتی تھی تو ہم سب آنکھیں بند کرلیتے تھے ان کا حکم تھا کہ یہ برا سین ہے اور اخلاق پر برا اثر پڑنے کا اندیشہ ہے لہٰذا آنکھیں بند کرلی جائیں‘خواتین وحضرات۔ ہم سب اپنی آنکھیں بند کرلیتے تھے کسی نے کبھی کانی آنکھ سے نہیں دیکھا کہ کیا سین چل رہا ہے وہاں حکومت کی طرف سے کوئی سنسر شپ نہیں تھی معاشرے نے خود ہی اپنے اوپر سنسر بٹھا یا ہوا تھا جب وہ دوبارہ گاکر بجنے کی آواز آتی تو سب آنکھیں کھول لیتے تھے۔“ اس اقتباس کا حاصل مطالعہ یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ رویوں میں کس قدر تبدیلی واقع ہوتی ہے خود احتسابی اور اخلاقی اقدار کی پابندی جس پیمانے پر پہلے لوگوں میں موجود تھی آج نظر نہیں آرہی جس کی ڈھیر ساری وجوہات اور مضمرات ہیں۔