اس ناچیز کو اپنی مرضی پر لکھنا ہوتا ہے۔جس میں سیاسی ہما ہمی اور کسی خاص طبقے کو آگے بڑھانا او رکسی گروہ کو نیچا دکھانا مقصود نہیں ہوتا۔ گپ شپ کے ہلکے پھلکے انداز میں بات کو آگے بڑھانا ہو تا ہے۔اس روڈ میپ پر آگے بڑھنا ہوتا ہے تاکہ کسی کی دل آزاری نہ ہو۔کسی فرد کو خاص طور پر نشان زد کر نا درست اقدام نہیں ہوتا۔ کیونکہ اخبار سب کا ہے جو اس کو پڑھنے ہیں اس کو اپنا جان کر اس کی ورق گردانی کرتے ہیں۔اگر کسی خاص تحریر سے کالم ریڈرز کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے تو کالم کار کا قلم آرائی کا مقصد گم ہو جاتا ہے۔کالم کا تحریر کنندہ اس مسئلے کو اجاگر کرتا ہے جس میں تعمیر کا پہلو پوشیدہ ہو۔جس کا تعلق زیادہ سے زیادہ عام و خاص لوگوں سے ہو۔کالم رائٹنگ بہت جان جھوکم کا کام ہے۔بہت ذمہ داری سے لکھنا ہے۔وہ شعر یاد آیاکہ ”مری زبانِ قلم سے کسی کا دل نہ دکھے۔ کسی کو شکوہ نہ ہو زیرِآسماں مجھ“۔کالم ہر دلعزیزی کے منصب پر فائز ہونے کا نام ہے۔پڑھنے والوں میں ہر ذہن کے لوگ ہوتے ہیں۔جن کا تعلق اور ہمدریاں ایک سیاسی دھڑے سے نہیں ہوتیں۔ ہاں مگر کالم کار کی ہمدری ہر طبقہ ئ فکر سے ہونی چاہئے۔ تاکہ اس پرکسی خاص گروہ کے حوالے سے اس کے ساتھ جانبداری کی چھاپ نہ لگ جائے۔بعض پیارے فرماتے ہیں کہ فلاں ٹاپک پر لکھو۔ مگر مجبوری یہ ہے کہ وہ جن مسائل سے آگاہ کرتے ہیں وہ کبھی کبھار سطحی نوعیت کے ہوتے ہیں۔پھر ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ کسی خاص مسئلے پر قلم اٹھانے کو توکہتے ہیں مگر اس عنوان کا تعلق بہت کم لوگوں سے ہوتا ہے۔چونکہ اخبار کا تعلق عوام کے ساتھ ہے۔ پھر جو مسائل یہاں درج ہو تے ہیں ان کا تعلق زیادہ سے زیادہ شہریوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ مگرپھرا س میں ملکی سیاست بھی ساتھ نتھی ہو جاتی ہے۔ا س لئے لکھاری کا واسطہ اگر ہو بھی تو اس کے باوجود اس کو سیاست کے حوالے سے جانبداری کا مظاہرہ نہیں کرنا ہوتا۔ کیونکہ قلم کار کو جتنے لوگ بھی پڑھتے ہیں وہ تمام کالم ریڈرز کبھی ایک سیاسی جتھے سے ہمدریاں نہیں رکھتے۔ وہ مختلف سمت سے اختلاف رائے کے حامل ہوتے ہیں۔وہ کیا شعر ہے کہ ”گلہائے رنگ رنگ سے ہے زینتِ چمن۔اے ذوق اس جہاں کو ہے زیب اختلاف سے“۔اسی زیب و زینت سے اس جہاں کی رنگا رنگی ہے۔۔صحافت معاشرہ کا چوتھا ستون نہیں ہے۔مگر اس کو چوتھا ستون یقین کے ساتھ سمجھا جاتا ہے۔کیونکہ اس میں لکھنے والوں کے آرٹیکل پڑھ کر قارئین کی رائے بنتی ہے۔یہاں مضمون نگار کا مقصد اپنے پڑھنے والوں کی رائے کی تشکیل ہوتا ہے۔مگریہ مقصد بھی تو دانستہ نہیں ہوتا بلکہ کالم نویس کے الفاظ سے خود بخود ایک بہاؤ کے ساتھ سامنے آتا ہے۔ پھر ضروری نہیں کہ ایک قاری نے ایک تحریر کو جس انداز سے لیادوسرا کالم ریڈر بھی تحریرکو اسی طرح سمجھے۔ ہر ایک کا اپنا انداز بیان ہے اور ہر ایک پڑھنے والے کا اپنا طرز احساس ہے۔مگر یہ کیا کم ہے کہ قارئین کو مسئلوں کی نشاندہی ہو جاتی ہے۔کالم لکھنے میں ہر ایک کو ساتھ لے کر چلنا پڑتا ہے۔الفاظ کے چناؤ میں بھی حددرجہ خیال رکھنا ہوگا۔جملوں کی بندش چست ہو اور لفظو ں کے اوپر الٹے کاموں تک سے پرہیز کرناہوتا ہے تاکہ بات کہیں کی ہو اور کہیں اور نہ پہنچ جائے۔ ورنہ رائٹر کی سب سے بڑی سزا یہی ہے کہ اس کو قارئین پڑھنا چھوڑ دیتے ہیں۔کوئی محریر نہیں چاہے گا کہ اس کی تحریر کو پڑھنا چھوڑ دیا جائے۔اس کے قاری زیادہ سے زیادہ ہوں اس کو یہ بات بہت بھاتی ہے۔پھر جب فیڈ بیک آنا شروع ہو خواہ ای میل ہو یا موبائل میسیج یا کہیں کسی محفل میں کوئی صاحب ملیں تو ان کے دل میں ذاتی حوالے سے یا ان کے طبقہ کے حوالے سے کوئی شکوہ بر لبِ زباں نہ ہو۔بہتر یہی ہوگا کہ رائٹر ذاتی تعصبات سے پاک رہے۔چونکہ اس کا تعلق سب سے ہوتا ہے اور اس کا رابطہ سب سے ہونا چاہئے اس لئے وہ اگر اپنے آپ کو صحیح سمجھتا ہے اور دوسروں کو غلط جانتا ہے تو یہ بھی درست نہیں۔اس لئے کہ کالم کے لکھاری کی سوچ سے بڑھ کر بھی زیادہ اچھی سوچ رکھنے والے اس کے کالم ریڈر موجود ہوتے ہیں۔اس لئے کالم نگاری بہت احتیاط اور اٹکل مانگتی ہے۔کسی انتشار کے تحت کسی شخصیت کا نام تک لکھنا بعض اوقات بہت اوکھا پڑتا ہے۔اس سے گریز ہی کیا جائے تو بہتر ہوگا۔سیاست تو ہمارے معاشرتی وجود کا ایسا حصہ بن گئی ہے کہ جس سے کنارہ کش ہو کر لکھنا بہت مشکل کا م ہے۔اپنی ذاتی وابستگی جو بھی ہو اس کو تیاگ کر بھائی بندی اور اخوت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ کیونکہ بعض اوقات ایک دھڑے سے دلی لگاؤ کی وجہ سے دوسرے قارئین کی حق تلفی کا ارتکاب ہو جاتا ہے۔جس سے ناحق دوسروں کی ناراضی مول لینا پڑتی ہے۔سو کسی پھڈے میں کیوں پاؤں پھنسایا جائے۔ کیوں نہ ان باتوں سے دور رہا جائے۔کیونکہ آگ لگا کر اس پر ہاتھ گرم کر کے مزے لینا تو صحیح ہے مگر کبھی اس کام میں ہاتھ کے جل جانے کا بھی اندیشہ رہتا ہے۔