مشہور ادیب و دانشور اشفاق احمد کی نشری تقاریر کو کوزے میں سمندر بند کرنے کا مصداق قرار دیا جا سکتا ہے،مختصر اور معمول کے واقعات میں سے انہوں نے جس طرح درس و عبرت کا سامان اکھٹا کیا ہے وہ انہی کا خاصہ تھا۔ایک مقام پر لکھتے ہیں کہ”آج سے کئی برس پہلے کی بات ہے میں ایک رسالہ دیکھ رہا تھا تو اس میں ایک تصویر نما کارٹون تھا‘جس میں ربڑ کی ایک بہت مضبوط کشتی گہرے سمندروں میں چلی جا رہی تھی اور غالباً اس کشتی میں سوار لوگ کسی خاص قسم کی مچھلی کا شکار کرنے نکلے تھے (اس کارٹون سے اس قسم کا تاثر ملتا تھا) اس ربڑ کی مضبوط کشتی کے ایک طرف سوراخ ہوگیا اور سمندر کا پانی بڑے دباؤ کیساتھ کشتی کے اندر داخل ہونے لگا۔ کشتی میں جو لوگ بیٹھے ہوئے تھے وہ ڈبے‘گلاس اور مگ لے کر یا جو بھی کچھ ان کے پاس تھا پانی نکالنے کی کوشش کرتے رہے اس کشتی کی دوسری سائیڈ پر جس طرف سوراخ نہیں ہوا تھا جو لوگ بیٹھے ہوئے تھے وہ انتہائی پرسکون نظر آرہے تھے‘ان میں سے ایک نے کہا کہ ہمیں بھی کشتی سے پانی نکالنا چاہئے لیکن اسکے ساتھیوں نے کہا کہ دفع کرو یہ ہماری سائیڈ تھوڑی ہے‘ اس سے ہمارا کیا تعلق۔ وہ خود ہی نکال لیں گے۔خواتین و حضرات!انسانی رویوں میں بڑی خرابی اسوقت پیدا ہوتی ہے جب آدمی یہ سمجھتا ہے کہ میرا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ میں الگ تھلگ اپنی ایک دنیا کا باسی ہوں۔ میرا اپنا ایک ماحول ہے اور میں باقی کی دنیا سے متعلق نہیں ہوں۔ہم ایک مخصوص علاقے کے بندے ہیں۔ پانی اگر ایک سائیڈ سے آرہا ہے تو شوق سے آئے ہمیں اس کی کوئی پروا نہیں ہے۔ ہم اپنے اندا ز سے چلیں گے اور موج میلہ کریں گے حالانکہ حقیقت میں ایسانہیں ہے ہم سارے کے سارے ایک دوسرے کیساتھ بندھے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کیساتھ وابستہ ہیں‘جب زندگی میں بہت مشکل پڑتی ہے، بہت الجھنیں ہوتی ہیں تو پھر آپ کو احساس ہونے لگتا ہے کہ انسان کا انسان کے ساتھ تعلق ہے۔ ایک اور مقام پر لکھتے ہیں کہ ایک بڑے اچھے جلد ساز تھے اور ہم سب علم دوست ان سے مخصوص کاغذوں کی جلدیں کروایا کرتے تھے یہ ہماری جوانی کے دنوں کی بات ہے اور اس جلد ساز کا نام نواز محمد تھا جب ہم ایم اے میں پڑھتے تھے تو وہ ہمارا ایک دوست نشے کا عادی ہو گیا ہم چونکہ سمجھدار‘ پڑھے لکھے اور سیانے دوست تھے ہم اسے مجبور کرنے لگے کہ تمہیں یہ بری عادت چھوڑ دینی چاہئے ورنہ ہم تمہارا ساتھ نہیں دے سکیں گے اور ہم تمہارے ساتھ نہیں چل سکیں گے وہ بے چارہ ایک تو نشے کی لعنت میں گرفتار تھا دوسرا وہ روز ہماری جھڑکیاں سہتا تھا جسکے باعث وہ ہم سے کنارہ کشی کرنے لگا محمد نواز جلد ساز بڑے خوبصورت دل کا آدمی تھا ہر وقت مسکراتا رہتا تھا گو وہ اقتصادی طور پر ہمارے دائرے کے اندر نہیں تھا لیکن وہ خوشگوار طبیعت کا مالک تھا اس نے ایک دن اسنے ہمارے دوست کا ہاتھ تھام کر کہا کہ بھلے تم نشہ کرو اور جتنا مرضی کرو مجھے اس پر اعتراض نہیں ہے اور تو چاہے نشہ کرے یا نہ کرے میں تمہیں چھوڑوں گا نہیں تو ہمارا یار ہے اور یار ہی رہے گا اس نے کہا کہ پنجابی کا ایک محاورہ ہے کہ یار کی یاری دیکھنی چاہئے یار کے عیبوں کی طرف نہیں جانا چاہئے‘ خواتین و حضرات آپ یقین کیجیے کہ بغیر کسی طبی علاج اور ماہر نفسیات کی مدد کے جب ہمارے نشئی دوست کو محمد نواز جلد ساز کا سہارا ملا تو وہ نشے کی بری اور گندی عادت سے باہر نکل آیا اور صحت مند ہونا شروع ہوگیا اب ہمیں یہ سوچنا چاہئے کہ کیا انفرادی طور پر ہی کسی کا ساتھ دیا جا سکتا ہے یا پھر انسان مدد کیلئے ادارے ہی بناتا رہے خواتین و حضرات میں یہی درخواست اپنی ذات سے بھی کرتا ہوں کہ کاش جانے سے پہلے ایک ایسی صورت پیدا ہو کہ ارگرد بسنے والے لوگ اور انسان اور اپنے عزیز و اقارب اور ان کے علاوہ لوگوں میں محبت، الفت اور یگانگت پیدا ہو جائے اور وہ اچھے لگنے لگیں اور اتنے اچھے لگنے لگیں جتنی اپنی ذات اچھی لگتی ہے میں سمجھتا ہوں کہ جب تک انسان انسان کے قریب نہیں آئے گا تب تک وہ سب کچھ ہونے کے باوصف کچھ نہیں ہو سکے گا جس کی ہمیں آرزو ہے اور جس خواہش اور آرزو کیلئے ہم اپنا دامن پھیلائے رکھتے ہیں۔ماڈل ٹاؤن لاہور میں ایک بڑاگول چکر ہے وہاں ایک بڈھا بابا ایک نیم کے پیڑ کے نیچے ٹھیلا لگاتا ہے‘ اس کیساتھ اس کا ایک بیٹا ہوتا ہے جو اس کی مدد کرتا ہے‘میری چھوٹی آپا ایک روز مجھے کہنے لگیں کہ میں ذرا اس ٹھیلے سے سبزی لے لوں‘اس بڈھے بابے کے لڑکے نے آپا کو کچھ گوبھی‘ بینگن اور کچھ ٹماٹر بڑی احتیاط کے ساتھ دیئے اور آپاکی پسند اور کہنے کے مطابق الگ الگ لفافوں میں ڈال کے وہ رکھتارہا۔ اب وہ لڑکا آپا جی کے پرس کی جانب دیکھ رہا ہے کہ وہ اسے پیسے دیں گی‘لیکن آپا ایک چکر کاٹ کے اس لڑکے کے باپ کی طرف چلی گئیں گو یہ ایک معمولی اور عام سی بات تھی لیکن لڑکے کے چہرے کے تاثرات کیا تھے یہ آپ بھی بخوبی جان سکتے ہیں‘اس بات کا میرے دل پر بڑا بوجھ تھا۔ایک دن میں اپنی بڑی آپا کے ساتھ گاڑی میں جا رہا تھا آپا نے اسی ٹھیلے کو دیکھ کر کہا کہ رکواس ٹھیلے والے کے پاس تو کتنی اچھی سٹرابری اور شہتوت ہیں وہ لے لیتے ہیں۔ آپا نے ٹھیلے والے سے کہا کہ کالے شہتوت ذرا کھٹے ہوتے ہیں‘ اس لڑکے نے کہا کہ نہیں جی یہ بہت میٹھے ہیں۔ وہ شہتوت بھی آپا نے لیے‘ آپا اسے پچاس روپے کا ایک نوٹ دیا اور ساتھ پوچھا کہ کتنے روپے ہوئے۔ اس نے کہا کہ اٹھارہ روپے اورکچھ پیسے ہوئے ہیں اور بڑی آپا نے اس لڑکے کو ہی پیسے دے دیئے کیونکہ اس نے ہی سروس کی تھی۔ اس لڑکے نے فٹافٹ ٹھیلے پر سے رکھی بوری کا پہلو اٹھایا اوربقایاریز گاری نکال کر آپا کو دے دی۔ میں یہاں پھر دل کی اور دل میں پنہاں شفقت کے اس خانے کی بات کرتا ہوں جو خانہ کسی کسی کو ہی نصیب ہوتا ہے۔یہ ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے۔ آپا اسے کہنے لگیں کاکا تو نے تو کمال کر دیا۔ فوراً حساب کرکے پیسے دیئے مجھے تو کافی وقت لگ جاتا تو بڑے کمال کا بچہ ہے۔ یہ تو نے کہاں سے سیکھا تو اس نے کہا کہ جی ہمارا تو یہ روزکا کام ہے۔ابّا سے دیکھا ہے۔“ ان اقتباسات کا حاصل مطالعہ ہمارے رویے ہیں جن کے ذریعے معاشرے کو تبدیل کیا جاسکتا ہے‘ ہم میں سے اگر ہرکوئی اس سوچ کے ساتھ زندگی گزارے کہ وہ دوسروں کی خوشی اور سکھ کا احساس کریگا تو پورا معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ بن جائے گا۔