اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ میں ’سال دوہزاربائیس‘ کے دوران عالمی سطح پر انسانی سمگلنگ کے واقعات کا ذکر کیا گیا ہے جسے نہایت سنجیدگی سے مطالعے و سمجھنے کی ضرورت ہے۔ مذکورہ رپورٹ میں نشاندہی کرتے ہوئے متنبہ کیا گیا ہے کہ جنوبی ایشیا انسانی سمگلنگ کا مرکز بنا ہوا ہے اور یہ وہ خطہ ہے جہاں سے خواتین کی سب سے زیادہ تعداد مغربی یورپ‘ مشرقی ایشیا‘ مشرق وسطیٰ اور دیگر مقامات پر سمگل کی جا رہی ہے۔ سال 2020ء سے متعلق اسی قسم کی رپورٹ میں بڑی تعداد میں مردوں کی سمگلنگ کا ذکر کیا گیا تھا اور دو سال بعد صورتحال یکسر تبدیل دکھائی دیتے ہوئے خواتین کی سمگلنگ کے بارے میں مطلع کر رہی ہے۔ مذکورہ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کم مراعات یافتہ طبقات سے تعلق رکھنے والے بچے‘ خواتین اور مرد سبھی سمگلنگ کے خطرے سے دوچار ہیں اور اِن میں اکثریت خواتین کی ہے جو معاشرے کا سب سے زیادہ کمزور طبقہ ہیں۔
پاکستان میں انسانی سمگلنگ خاص طور پر بچوں کی سمگلنگ ہمیشہ سے مسئلہ رہا ہے۔ بچوں کی سمگلنگ کے فعال نیٹ ورکس کی موجودگی بھی
خارج از امکان نہیں ہے جو نوجوان لڑکوں کو اونٹوں کے جوکی کے طور پر خلیجی ریاستوں میں بھیجنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ بچوں کو اکثر پاکستان کے اندر اور بیرون ملک مزدوری پر مجبور کیا جاتا ہے۔ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں نے نوٹ کیا ہے کہ انسانی سمگلنگ کے حوالے سے قوانین کمزور ہیں‘ انسانی سمگلنگ میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچاناضروری ہے۔ ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ انسانی سمگلنگ کے خلاف جو قوانین پہلے سے موجود ہیں اُن پر خاطرخواہ عمل درآمد نہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے بچوں‘ مرد و خواتین کو ان کی مرضی کے خلاف زبردستی سمگل کیا جاتا ہے۔ انسانی سمگلنگ کسی بھی صورت قابل قبول نہیں ہونی چاہئے اور نہ ہی قابل قبول قرار دی جا سکتی ہے اِس کے خلاف ’زیرو ٹالرنس‘ (عدم رواداری) کی ضرورت ہے‘ چاہے جرم میں ملوث افراد کتنے ہی بااثر و طاقتور کیوں نہ ہوں۔ انسانی تجارت ایک ایسا جرم ہے جسے طویل عرصے سے نظر انداز کیا جا رہا ہے کیونکہ اِس سے معاشرے کے نچے (کمزور) طبقات متاثر ہیں اور یہ بات اپنی جگہ المیہ ہے۔
سال دوہزار بیس کے دوران دنیا بھر میں انسانی سمگلنگ کے زیادہ واقعات رپورٹ ہوئے ہیں لیکن اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے اور گزشتہ برسوں کے دوران انسانی سمگلنگ کے واقعات کی تعداد کا آپس میں موازنہ کیا جائے تو اِن میں گیارہ فیصدی کمی آئی ہے اور اعدادوشمار سے پتہ چلتا ہے کہ اسی عرصے کے دوران انسانی سمگلنگ کے جرائم میں سزا پانے والوں کی تعداد میں بھی ستائیس فیصد کمی آئی ہے۔ جنوبی ایشیا میں چھپن فیصد کمی ریکارڈ کمی ناقابل یقین ہے جو اقوام متحدہ کی رپورٹ کا ایک متضاد پہلو ہے۔
بہرصورت انسانی سمگلنگ کے واقعات (اعداد و شمار) کو کم کرنے کی ضرورت اپنی جگہ ہے تاکہ لوگ اپنے گھروں میں محفوظ رہ سکیں اور جہاں بھی جائیں اور جہاں بھی گزر بسر کرنا چاہیں اُنہیں بنا استحصال اِس کی اجازت ہونی چاہئے بالخصوص اُن خواتین کے حقوق کا تحفظ ہونا چاہئے جنہیں کام کاج کے لئے گھر سے باہر نکلنا پڑتا ہے۔ اس صورتحال کی اصلاح کے لئے پولیس فورس کے ساتھ قومی و صوبائی فیصلہ سازی کے مراحل پر انسانی سمگلنگ روکنے‘ انسانی سمگلنگ کے امکانات و صلاحیت میں کمی اور اِس مسئلے کے بارے میں عمومی شعور (تفہیم) بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔تاہم قومی سطح پر اٹھائے گئے اقدامات کے اثرات تب ہی مثبت سامنے آئیں گے جب اس میں عوامی شمولیت کو یقینی بنایا جائے کیونکہ یہ ایسا مسئلہ ہے جس کا شکار اکثر وہ لوگ ہوتے ہیں جو دور دراز دیہات میں بستے ہیں اور جو بہتر زندگی کی تلاش میں شہروں کارخ کرتے ہیں اس لئے اگر عوامی سطح پر مہم چلائی جائے اور میڈیا سمیت دیگر ذرائع کو بروئے کار لاتے ہوئے عوام میں شعور اجاگر کیا جائے تو یہ مسئلہ بڑی حد تک حل ہو سکتا ہے۔