مشہور مصنف اور ادیب اشفاق احمد اپنی ایک نشری تقریر میں بیان کرتے ہیں کہ سراج دین نامی ایک مزدور تھا، آج سے بہت سال پہلے کی بات ہے میں اپنا دفتر بنوا رہا تھا، جب مزدور کی دیہاڑی تیس روپے روزانہ ہوتی تھی، سراج چپس گھسانے کا کام جانتا تھا، بہت ذہین اور خوبصورت آدمی تھا، اچھی بات کرتا تھا اور بہت کم گو تھا‘ خوب صورت بات کرتا تھا اور لوگ اس کو 30 روپے دیہاڑی کے بجائے50 روپے دیتے تھے، کیونکہ وہ اپنے فن کا ماہر تھا، وہ اپنے فن پر پوری استقامت کے ساتھ حاوی تھا۔ایک بہت اچھا دن تھا 25، 26 دسمبر کی بات ہے، دھوپ بہت اچھی نکلی ہوئی تھی‘ میں جب دفتر آیا تو سب لوگ کام کررہے تھے‘ کام بہت تیزی کے ساتھ ہو رہا تھا میں نے ٹھیکیدار سے پوچھا سراج نہیں آیا؟ اس نے کہا، نہیں آیا‘ میں نے کہا، کیوں نہیں آیا؟ کہنے لگے کوئی پتہ نہیں‘ میں غصے میں سراج کے گھر گیا، میں نے کہا‘ تو مجھے بتا تو آیا کیوں نہیں‘ اس نے کہا، کوئی خاص وجہ نہیں تھی‘ میں نے کہا، کیوں نہیں آیا، تمہیں ساری وضاحت دینا پڑے گی‘ اس نے کہا بات یہ ہے کہ یہ جو کنستر ہے ناں جی مٹی ڈال کر نرگس کا ایک پودا لگایا تھا کل شام، جب میں گھر آیا ہوں تو اس میں ایک پھول کھلا ہوا تھا تو مجھے بڑا اچھا لگا‘ دیکھیں ہمارے گھر میں آج ایک نرگس کا پھول ہے‘ یہ میں آپ کو دیتاہوں، اس کی خوشبو دیکھیں کتنی اچھی ہے‘ میں تمہارے اس پھول کو بالکل قبول نہیں کرتا‘ میں تمہارے اس کنستر کو باہر پھینکوادوں گا‘ تم کیا فضول بات کیلئے یہاں رہ گئے، تم کو آنا چاہیے تھا‘ ساتھ ہی کہنے لگا، سرجی جب میں گھر آیا ہوں تو میری بیوی نے مجھے کہا کاکا چلنے لگ گیا ہے، پہلے رڑھتا، گھٹنوں چلتا تھا‘ آج پہلا دن ہے کہ وہ ڈگ مگ ڈولے چلا ہے‘ میں نے کہا، وہ تو سوگیا ہے‘ کہنے لگی ہاں‘ میں نے کہا، اس کو جگاؤ میں تو اس کو چلتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہوں‘ اس نے کہا کمال کرتے ہو کاکا تو سویا ہوا ہے‘ میں اس کو کیسے جگاؤں‘ کہنے لگا، صبح اٹھتے ہی پہلا کام میں نے یہ کیا‘ میں ادھر بیٹھ گیا،بیچ میں اپنا بچہ چھوڑ دیا، چھوٹا بچہ تھپ تھپ کرتا کبھی ادھر جاتا تو کبھی ادھر جاتا تھا‘ صاحب زندگی روشن ہوگئی‘ کنستر میں پھول کھلا تھا، چھوٹا بچہ تھپ تھپ کرتا ادھر ادھر جاتا تھا، سرجی! ہمیشہ آج کا دن دھندلا دن ہوتاہے لیکن آج بڑا خوبصورت دھوپ والا دن تھا‘ اتنا خوب صورت دن پچاس روپے میں تو نہیں بیچا جاسکتا‘ سر میں کل آجاؤں گا، رات بھی لگا دوں گا آپ کہیں گے تو، اور آدھی چھٹی بھی نہیں کروں گا لیکن اس خوبصورت دن کو آپ رہنے دیں‘ اتنا سستا نہیں بیچا جاسکتا‘ میں نے کہا، پانچ سو روپے کا بیچتے ہو‘ کہنے لگا، نہیں‘ وہ تو حال پر راضی تھا۔ ایک اور مقام پر وہ رقم طراز ہیں کہ میں سوچتا ہوں کہ آپ لوگ بھی میری طرح کے ہی ہوں گے کیونکہ جو جو کوتاہیاں خامیاں مجھ میں سراٹھاتی ہیں ان مشکلات سے آپ بھی گزرتے ہوں گے‘ آپ بھی تو میرے ہی بھائی بہن ہیں‘فرق صرف یہ ہے کہ میں کئی بار اس کا اعتراف کرلیتا ہوں‘کئی دفعہ نہیں کرتا‘مثلاً میں یہ سوچا کرتاہوں اور میری یہ ایک مشکل ہے کہ جب کبھی کوئی سڑک چوراہا کراس کرتاہوں تومجھے سرخ بتی ہی کیوں ملتی ہے‘ میں جب بھی گزرا ہوں‘مجھے سرخ بتی میں ملتی ہے۔ اچھا چلئے مل گئی‘میں وہاں کھڑا ہوگیا پھریہ کیوں ہوتاہے کہ سرخ بتی کا لمحہ جو ہے وہ آدھے گھنٹے پر محیط ہوتاہے‘سبز جوہوتی ہے وہ دس سیکنڈ میں بدل جاتی ہے‘بڑا دکھ ہوتا ہے مجھے۔ میں پرانے زمانے کا آدمی ہوں یہ مشکلات ہیں آپ کا بھی یہ تجربہ ہوگا اور مجھے یقین ہے کہ آپ بھی اس مشکل مرحلے سے گزرے ہوں گے اور گزرتے ہوں گے۔ تو زندگی کے اس پیچ و خم سے مجھے بڑی شکایات رہتی ہیں اور میں جھگڑتا بھی رہتا ہوں۔“ ان منتخب اقتباسات کاحاصل مطالعہ اپنے حال پر خوش ہونے کی اہمیت ہے۔ اگر ہر کوئی قناعت اور صبر و تحمل کا مظاہرہ کرے تو معاشرے میں جو بے ترتیبی نظر آرہی ہے اس کا خاتمہ ہوجائے ایک اور بات جو اشفاق احمد نے نشری تقریر میں واضح کی ہے وہ یہ ہے کہ زندگی سے لطف اندوز ہونے کی صلاحیت اگر ہو تو ہر لمحہ لطف دینے والا بن سکتا ہے اور چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو سیلیبرٹ کرنے سے ان کی اہمیت بڑھ جاتی ہے انہوں نے ایک مزدور کار کا واقع لکھا ہے کہ بڑی سے بڑی قیمت ادا کرنے پر بھی وہ خوشی کے اس لمحے کو قربان کرنے پر تیار نہیں جس کے لئے ذہنی طور پر اس نے تیاری کر رکھی ہے یعنی یہ پیشہ اور دولت ہی سب کچھ نہیں بلکہ اصل خوشی دل کے اندر ہوتی ہے جو انمول ہوتی ہے اور ڈھیر ساری دولت کی موجود گی میں بھی بسا اوقات خوشی نہیں ملتی جبکہ ایسے لوگ بھی ہیں جو بغیر دولت اور آسائش کے پرسکون زندگی سے اس طرح لطف اندوز ہو رہے ہیں جس کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا۔