میں نے چھولے لینے کے لئے نیچی پرواز کی اور اپنے اُڑن کھٹولے سے لینڈ کیا۔اس کے چھولے اچھے ہوتے ہیں۔یا تو یہ دکاندار نیا ہے۔کیونکہ جو بازار میں نیا آنے والا دکاندار ہو تو اپنے مال کو پر کشش بنانے کے لئے ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔پھر ایسا تو عام ہوتا آیا ہے کہ جب اس کا مال بکنے لگتا ہے تو اس کی کوالٹی اور معیارمیں کمی ہونے لگتی ہے۔حتیٰ کہ وزن میں بھی وہی چیز پرانے والی قیمت پرکم ملنے لگتی ہے۔خیر چاچا نے کہا پروفیسر صاحب چھولے اگر نرگسی کوفتوں میں ڈالے جائیں تو بہت مزا دیتے ہیں۔ شاید مجھے جانتا ہوگا۔میں ہنس پڑا میں نے کہا بعض دکانداروں کے ہاں جہاں نرگسی کوفتے فروخت ہو تے ہیں وہاں تھال میں چھولے بھی ڈالے گئے ہوتے ہیں۔یا چھولے والے کے پاس نرگسی کوفتے تھال کے اوپررکھ لیتے ہیں۔بہر حال جو بھی ہو مزادیتے ہیں۔ پھر اچانک میں نے اس کا چہرہ پڑھ لیا۔پھر میں نے سوچا کہ اگر انھوں نے نرگسی کوفتوں والا کالم پڑھا ہے تو اس کے بعد اور پہلے چھپنے والے خوراک کے بارے میں دیگر کالم بھی ملاحظہ کئے ہوں گے۔ میرانارنج والے چاول کا جو کالم شائع ہوا وہ بھی تو پڑھا ہو گا آپ نے۔اس پر اس نے ہنسی بکھیرتے ہوئے جی جی کرنے میں سرہلانا شروع کیا۔یہ میرے لئے بہت بڑی بات ہے کہ عام پبلک سے مجھے میرے کالموں کے بارے میں فیڈ بیک آئے۔ اصل میں شہریوں کی اور قارئین کی رائے ایک آئینہ ہے کہ جس میں خود کو دیکھ کر میں اپنے چہرے کے داغوں کو دور کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ ورنہ ہمارا کیا ہے بس قلم گھسیٹ لیتے ہیں۔ہم کو تو علم نہیں ہوتا کہ نرگس جیسے نابینا پھول کو اس کے حسن کی طرف کچھ دانشور اور کچھ عوام کے نمائندے اس کی توجہ دلائیں۔اس سے حوصلہ بڑھتا ہے اور اس حوصلہ افزائی سے بندہ کی لکھنے کی صلاحیت میں زبردست اضافہ ہوتا ہے۔یہ بھی قدرت کا ایک تحفہ ہے کہ ہمارا کالم ہر عام و خاص کی نظروں تلے سے گزرتا ہے۔اندرن شہر او ربیرون از شہر بلکہ بیرون ملک سے بھی داد و تحسین کے الفاظ گلے میں پھولو ں کے ہار بن جاتے ہیں او رہم ان کے کلمات سن کر پھولے نہیں سماتے۔وہ کیا مصرع ہے کہ ”مرا قلم تو امانت ہے میرے لوگوں کی“۔ ہم کھانے پینے میں اتنے سپیشلٹ تو نہیں ہیں۔ چڑیا جیسا معدہ ہے۔ بس شادی بیاہوں میں تھوڑا بہت کھا پی لیتے ہیں۔چاول کی پلیٹ یا اس سے تھوڑا سا زیادہ اگر کھا لیا تو کھا لیا اور حسبِ موقع اگر ساگ کا پیالہ دوسروں کی نظریں بچا کر ہتھ لگ گیاتو اس پرہاتھ صاف کرلیا او رپنیرکی ڈلیاں بیچ بیچ سے اڑا لیں تو اس سے ہم جیسوں کا پیٹ بھلاکب بھرتا ہے۔کھیر ہو یا فرنی شوگر کے ہوتے سوتے اگر نوشِ جاں کر لی تو دیکھتا کون ہے۔کیونکہ سب اس وقت اپنی اپنی پیٹ پوجا کے سین کی انجام دہی میں مصروف ہوتے ہیں۔اپنی اپنی بیماریاں بھولے ہوتے ہیں۔کسی کو کسی کا خیال نہیں ہوتا۔پھرایسے میں کابلی پلا ؤ بھی سامنے پڑا بلڈ پریشر میں اضافہ کرنے کو دعوت دے رہا ہوں تو کون ایسا مریض ہوگا جو یہ دعوت قبول نہ کرے بھلے گھر جا کر اپنی گھریلو علاج کرلیں گے۔ چاول ہوں اور کوئی چھوڑے یہ بات چھوڑیں۔ بہت دل گردے والے ہوں جوشادی بیالوں کے نادر کھانو ں کو اگنور کر کے پرہیز کو فالو کریں۔ ویسے ان مواقع پر پرہیزی کھانے کہاں ہوتے ہیں۔ اگر آپ شادیوں میں کھانا نہ کھائیں اور اس پر شادی کے گھر والے آپ سے ناراض ہو جائیں تو یہ بھی اچھی بات نہیں ہے۔دوسروں کوناراض نہ کریں بلکہ حد درجہ کوشش سے ان کو راضی رکھیں۔بعض حضرات کا کہنا ہے کہ آپ شادی بیاہ کے موضوعات پر کھانے پینے کے حوالے سے بہت اچھا لکھتے ہیں۔شاید وہ طنز کرتے ہوں مگر ہم تو کوئی چیز دیکھیں اور اس پر نہ لکھیں تو ہم پر بھی ہمیں خود افسوس ہوگا۔مگریہاں تو چیزیں بھی کھانے پینے والی ہوں تووہ کھا پی کر ان پر لکھنا بھی تو عین نمک حلال ہونے والا کام ہے۔اس لئے ہم نے نرگسی کوفتو ں اور نارنج والے چاولوں کے بارے میں اور اس کے علاوہ اور ڈشوں پر قلم آرائی کی ہے او رخوب کی ہے بلکہ ان ڈشوں کے ساتھ پنجہ آزمائی کر کے ان کا حال بیان کیا ہے۔کھانے کے ان نادرآئٹم کو کون چھوڑتا ہے۔غریب ہو مالدار ہو نادار ہو ماتحت ہو افسر ہوسیاسی شخصیات کوئی نہ کوئی ڈش کسی نہ کسی کی پسند ہوتی ہے۔کیونکہ دنیا میں پیٹ ہی تو ہے او ردنیا میں کیا رکھا ہے۔