مشہور ادیب اور دانشور اشفاق احمد اپنی ایک نشری تقریر میں بیان کرتے ہیں کہ اوکاڑہ میں ایک میلہ لگتا ہے(اب پتہ نہیں لگتا ہے یا نہیں کیونکہ میری جوانی کے زمانے میں لگا کرتا تھا) اور مجھے ان میلوں ٹھیلوں سے بہت دلچسپی ہے میں نے دیکھا کہ وہاں پر ایک پنگھوڑا لگا ہے اور اس کا مالک آٹھ آٹھ آنے لے کر گول گھومنے والے پنگھوڑے سے جھولے دے رہا ہے دیکھنے لگا تو ایک گاؤں کا آدمی وہاں آیا اس کی پگڑی کھل کر گلے میں پڑی ہوئی تھی اور اس نے کھدر کی تہبند باندھی ہوئی تھی وہ بھی اس پنگھوڑے کے لکڑی کے گھوڑے پر سوارجھولے لے رہا تھا جب ایک ”پور“(چکر)ختم ہوا اور سارے اتر گئے تو تب بھی وہ شخص وہیں بیٹھا رہا اور وہ اکڑوں حالت میں بڑی تکلیف اور پریشانی میں ویسے ہی گھومتا رہا جب وہ تیسرے چکر کے اختتام پر بھی نہ اترا تومیرا اس میں تجسس بہت بڑھ گیا اور میں نے آگے بڑھ کر اسے کہا کہ آپ نے ”جھوٹے“لے لئے ہیں اور آپ اترتے کیوں نہیں ہیں اگر آپ کو یہ چکر پسند ہیں تو پھر آپ کے چہرے پر خوشی ٗمزے اور بشاشت کے اشارے ہونے چاہئیں جو بالکل نہیں ہیں۔ اس نے کہا کہ جناب بات یہ ہے کہ یہ جو پنگھوڑے والا ہے اس سے میں نے تیس روپے لینے ہیں اور میں ہفتہ بھر سے اس کے پیچھے گھوم رہا ہوں اور یہ میرا قرضہ نہیں دے رہا ہے اور اب میں نے اس کا یہی حل سوچا ہے کہ میں اپنے قرضے کے بدلے اس کے پنگھوڑے پر”جھوٹے“ لوں۔ اب یہ میرا29واں پھیرا جا رہا ہے اور ہر مرتبہ میں آٹھ آنے کم کرتا جاتا ہوں اور اس طرح سے میں اپنا قرضہ واپس لے رہا ہوں۔ایک اور مقام پر اشفاق احمدباہمی تعلقات کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ بندے کا بندے سے تعلق ضروری ہے چاہے اسے پتہ ہو چاہے نہ پتہ ہو ہ کسی سے چاہے کتنی ہی نفرت کرلیں لیکن تعلق کا ایک دائرہ ہمیشہ آپکے گرد کام کرتا رہتا ہے اور آپکو تقویت فراہم کرتا رہتا ہے جبکہ آپ اکیلے اپنے کو اتنی تقویت نہیں بخش سکتے کبھی بھی آپ اپنے بوٹ کے تسمے خود کھینچ کر اپنے آپ کو ہوا میں نہیں اٹھا سکتے کوئی بندہ آپ کو ’جپھی‘ ڈال کے اونچا اٹھا سکتا ہے مجھے روشنی سے ایک بات یاد آگئی بڑی توجہ طلب اور لطیف بات ہے ایک زمانے میں بہاولپور کے ایک گنے کے کھیت میں ایک گنے کے ٹانڈے پر سور ج کی چمکدار‘سنہری روشنی پڑتی ہے اور وہ صبح سویرے پڑرہی ہوتی ہے سات منٹ کے بعد وہ گنے کا ٹانڈا اس روشنی سے نکل جاتا ہے پھر وہ روشنی دوسرے ٹانڈوں پر یا کھیت پر پڑتی جائے گی ج باس ٹانڈے پر وہ روشنی پڑچکی تو وہ ٹانڈا کٹا اور کٹ کے شوگر فیکٹری میں گیا وہاں وہ کرش ہونے کے بعد چینی میں تبدیل ہوا پھر اس کی بوری بھری گئی اب وہ بوری کس طرح سے سفرکرتی ہوئی ہمارے ہاں لاہور پہنچی پھر دکاندار سے ہمارے ریستوران یا ٹی ہاؤس کے بندے نے کلو دوکلو چینی خریدی ادیب آرٹسٹ لوگ وہاں بیٹھے تھے میں نے وہاں سراج سے کہا (جوٹی ہاؤس میں بڑا ہی پیارا بیرا ہے) کہ چائے کی سٹرانگ سی پیالی لاؤ اب اس نے ایک کی بجائے دو بلکہ سوا دوچینی کے چمچ اس چائے میں ڈالے اور وہ چائے مجھے دی میں وہ چائے پی کر وہاں سے باہر نکلا اور اپنی سائیکل اٹھائی (یہ میں اپنے کالج کے زمانے کی با ت کررہا ہوں)میری وہ سپورٹس سائیکل تھی چلنے سے پہلے میں نے اس کی ڈائنمو کو اس کے ٹائر کیساتھ لگایا میں نے اس چینی سے اپنے اندر پیڈل پاور پیدا کی اور پیڈل چلانا شروع کیا پھر میری سائیکل کے ٹائر سے لگی ڈائنمو سے بجلی پیدا ہوکر میرے سائیکل کی بتی میں آئی تو ساری سڑک میرے سامنے روشن ہوگئی خواتین وحضرات‘یہ وہی روشنی تھی جو سورج نے گنے کو عطا کی تھی یہ رشتے میں بندھی ہوئی کس طرح سے میرے پاس آئی اور اب میں اس روشنی کو پہچانتا تھا اور میں چلا جارہا تھا ہم رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں کسی نہ کسی طرح سے کسی نہ کسی روپ میں ہم کو باہم ہونا پڑے گا آپ کبھی اکیلے میں بیٹھ کر اس پر ضرور غور کیجئے گا۔“ ان اقتباسات کا حاصل مطالعہ ایک تو پہلے لوگوں کی طبیعت میں سادگی کا عنصر تھا جس نے انکی زندگی کا آسان بنایا ہوا تھا،ساتھ ہی وہ لوگ آپس میں جڑے ہوئے تھے جس کے اثرات تمام شعبہ ہائے زندگی میں محسوس کئے جاتے تھے۔ اب زندگی کی دوڑ تیز ہوگئی ہے اور ہر کوئی الگ الگ سمت میں دوڑ رہا ہے جس سے لوگوں کے درمیان فاصلے بڑھتے ہی چلے جار ہے ہیں۔