گزشتہ ایک صدی کے دوران تیل اور توانائی کے ذرائع پر کنٹرول نے دنیا میں جنگوں کو جنم دیا، مختلف ممالک کو غیر متوقع اتحاد کرنے پر مجبور کیا اور متعدد سفارتی تنازعات کو جنم دیا ہے۔مگر اب دنیا کی دو بڑی معیشتیں ایک اور اہم اور قیمتی ٹیکنالوجی پر لڑ رہی ہیں اور یہ ٹیکنالوجی سیمی کنڈیکٹرز ہیں، وہ چھوٹی مائیکرو چِپ جو ہماری روز مرہ زندگی کا اہم ترین جزو بن چکی ہے۔ سیلیکون سے بنی یہ چھوٹی چھوٹی چپس 500 ارب ڈالر کی بڑی صنعت کا دل ہیں۔ اور اس صنعت کا حجم 2030 تک دگنا ہونے کی توقع ہے۔ اور ماہرین کے مطابق جو ملک بھی ان مائیکرو چپس کی سپلائی چین کا انتظام سنبھالے گا وہ دنیا کی سپر پاور بن جائے گا۔ چین ان مائیکرو چپس کو بنانے کی ٹیکنالوجی حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اور یہ ہی وجہ ہے کہ امریکہ جس کے پاس یہ ٹیکنالوجی پہلے سے موجود ہے چین کو دنیا سے دور اور الگ تھلگ کرنے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے۔امریکہ کی ٹفٹس یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر اور چِپ وارز کے مصنف کرس ملر کہتے ہیں کہ دونوں ممالک واضح طور پر ایشیا پیسفک خطے میں ہتھیاروں کی دوڑ میں پھنسے ہوئے ہیں۔ان کا مزید کہنا ہے کہ مگر اس دوڑ میں اور بھی عوامل ہیں۔ہتھیاروں کی اس روایتی دوڑ میں جہاں جہازوں اور میزائلوں کی زیادہ تعداد میں تیاری ہے وہی یہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے الگورتھم کے معیار پر بھی ہے جو عسکری سسٹمز میں بھی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔مگر اس وقت یہ جنگ امریکہ جیت رہا ہے لیکن چین کے خلاف مسلط کی گئی مائیکرو چِپ کی یہ جنگ دنیا کی معیشت کو بدل رہی ہے۔سیمی کنڈیکٹر کی تیاری کا عمل پیچیدہ، مخصوص اور مربوط ہے۔ایک آئی فون میں مائیکرو چِپ ہوتی ہے جسے امریکہ میں ڈیزائن اور تائیوان، جاپان اور جنوبی کوریا میں تیار کیا جاتا ہے اور اس کے بعد اسے چین میں اسمبل کیا جاتا ہے۔انڈیا جو اس صنعت میں بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے مستقبل میں ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔سیمی کنڈیکٹرز امریکہ میں ایجاد کیے گئے تھے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ مشرقی ایشیا ان کی تیاری کا مرکز بن گیا اور اس کی وجہ وہاں کی حکومتوں کی اس صنعت کے لیے مراعات اور سبسڈیز تھی۔اس نے واشنگٹن کو سرد جنگ کے دوران روسی اثر و رسوخ کے خطرے سے دوچار خطے میں کاروباری تعلقات اور سٹریٹجک اتحاد کو
فروغ دینے میں مدد دی ہے۔ اور یہ آج بھی ایشیا پیسیفک خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے پیش نظربہت مفید ہیں۔اس وقت مقابلہ وسیع پیمانے پر سب سے بہترین اور موثر مائیکرو چِپ بنانے کا ہے اور ایسے میں یہ چِپ جتنی چھوٹی ہو گی اتنا بہتر ہے۔ اس کی تیاری میں یہ چیلنج بھی ہے کہ سیلیکون کے اس چھوٹے سے ٹکڑے پر کرنٹ کو روکنے اور گزرنے والے کتنے ٹرانسسٹرز لگائے جا سکتے ہیں۔کیلیفورنیا کی سیلیکون ویلی میں قائم بین اینڈ کمپنی کے جیو وانگ کا کہنا ہے کہ اسے سیمی کنڈیکٹرز کی صنعت میں مورز لا کہا جاتا ہے جس میں وقت کے ساتھ ساتھ مائیکرو چِپ پر ٹرانسسٹرز کی تعداد کو دگنا کرنا ہے اور اس ہدف کو حاصل کرنا بہت مشکل ہے۔یہ وہ چیز ہے جو ہماری موبائل فونز کو تیز بناتی
ہے، ہماری فوٹو گیلری کو بھاتی ہے اور ہماری سمارٹ ڈیوائسز کو وقت کے ساتھ ساتھ بہتر اور جدید بناتی ہے اور سوشل میڈیا کے مواد کو مزید اچھا بنا کر پیش کر تی ہے۔لیکن اس کا حصول کسی بھی مائیکرو چپ بنانے والی بڑی کمپنی کے لیے آسان نہیں ہے۔ 2022 کے وسط میں سام سنگ وہ پہلی کمپنی بنی تھی جس نے تین نینو میٹر والی مائیکرو چپس کی وسیع پیمانے پر تیاری کا آغاز کیا تھا۔اور اس کے بعد سال کے آخر تک دنیا کی مائیکرو چپ تیار کرنے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی اور ایپل کو مائیکرو چپ فراہم کرنے والی تائیوان سیمی کنڈیکٹر مینو فیکچرنگ کمپنی نے بھی اس کو تیار کر لیا تھا۔آپ کو سمجھانے کے لیے ہم ان انتہائی باریک تاروں کی بات کر رہے ہیں جو انسانی بال سے بھی باریک ہیں اور ان کی تعداد 50 سے ایک لاکھ ہوتی ہے۔یہ چھوٹی مائیکروچپس بہت طاقتور ہوتی ہیں اور یہ دیگر قیمتی آلات جیسا کے سپر کمپیوٹرز اور دیگر آرٹیفشل انٹیلیجنس کے آلات میں استعمال ہو سکتی ہے۔جبکہ اس وقت دوسری مائیکرو چپس کی مارکیٹ جو ہماری روز مرہ زندگی کی
چیزوں کا حصہ ہیں جسیا کہ مائیکرو ویوز، ریفریجریٹرز، یا واشنگ مشینیں وغیرہ میں استعمال ہوتی ہیں لیکن مستقبل میں ان پرانی مائیکرو چپس کے ختم ہونے کی امید ہے۔دنیا کی زیادہ تر مائیکروچپس تائیوان میں تیار کی جاتی ہیں اور اسی لیے اس کے صدر اسے سیلیکون شیلڈ کا نام دیتے ہیں۔ یعنی عام زبان میں یہ چین سے تحفظ دیتا ہے جو اس خطے پر اپنا حصہ ہونے کا دعوی کرتا ہے۔چین نے بھی مائیکرو چپ کی تیاری کو قومی ترجیح کے طور پر لیا ہے اور وہ سپر کمپیوٹرز اور آرٹیفشل انٹیلیجنس کی صنعت میں بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ تاہم اب بھی وہ اس صنعت میں عالمی لیڈر بننے کی دوڑ میں بہت پیچھے ہے۔ پروفیسر ملر کا کہنا ہے کہ لیکن گذشتہ ایک دہائی کے دوران وہ اس دوڑ میں بہت قریب آ گیا ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ آگر آپ تاریخی اعتبار سے دیکھیں تو ہر مرتبہ طاقتور ممالک انفارمیشن ٹیکنالوجی میں ترقی کرتے ہیں اور اپنے عسکری اور انٹیلیجنس کے نظام کا حصہ بنا دیتے ہیں۔اور یہ ہی بات ہے کہ چین کی مائیکرو چپس کی طلب کو پورا کرنے کے لیے تائیوان اور دیگر ایشیائی ممالک پر اس کی انحصاری ہی امریکہ کو کھٹکتی ہے۔امریکی صدر بائیڈن کی انتظامیہ مائیکرو چپ ٹیکنالوجی تک چین کی رسائی کو روکنے کی کوشش کر رہی ہے۔گذشتہ سال اکتوبر میں، واشنگٹن نے اس ضمن میں وسیع پیمانے پر سخت اختیارات یا کنٹرولز کا اعلان کیا جس کی وجہ سے کمپنیوں کے لئے مائیکرو چپس، ان کو بنانے والی مشینیں، یا امریکی ٹیکنالوجی پر مشتمل پروگرام چین کو برآمد کرنا تقریبا ناممکن ہو گیا ہے، چاہے وہ دنیا میں کہیں بھی کیوں نہ ہوں۔امریکہ نے اپنے شہریوں یا امریکی رہائشیوں کو چین کی بعض فیکٹریوں میں مائیکرو چپس کی تیاری و پیداوار کی حمایت کرنے سے بھی منع کیا۔امریکہ اپنے ملک میں بھی زیادہ مائیکرو چپس تیار کرنا چاہتا ہے۔ چپس اور سائنس لاء کے تحت امریکہ میں ہی چپس تیار کرنے والی کمپنیوں کو 53 ہزار ملین ڈالرز کی گرانٹس اور سبسڈیز دی گئیں ہیں۔اس کا فائدہ ٹی ایم ایس سی جیسی بڑی کمپنیاں اٹھا رہی ہیں، جو کہ تائیوان سے باہر پہلی بار 40 ارب ڈالرز کے دو پلانٹس میں سرمایہ کاری کر رہی ہے۔مائیکرون، امریکہ میں میموری چپس بنانے والی سب سے بڑی کمپنی ہے جو سپر کمپیوٹرز، فوجی سازوسامان اور کسی بھی ڈیوائس کے لیے ضروری ہے۔