اصلاحی مراکز

جیل خانہ جات سے متعلق اصلاحات کے حوالے سے بہت ہی کم (شاذ و نادر) بات چیت ہوتی ہے۔۔ تیئس جنوری کو جب بجلی کے وسیع بریک ڈاؤن کی وجہ سے پورا ملک اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا تو گجرات جیل میں پولیس اہلکاروں اور قیدیوں کے درمیان ہاتھا پائی ہوئی۔  فسادات کے الزام میں تقریبا ًڈھائی سو قیدیوں کے خلاف مقدمات درج کئے گئے۔ واقعے کے فوری بعد پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی اور اگرچہ اس طرح کے اقدامات کچھ عرصے کے لئے امن و سکون بحال کرسکتے ہیں لیکن یہ قیدیوں کو درپیش مسائل کا طویل مدتی حل نہیں۔ جیلوں میں ناخوشگوار واقعات پیش آنا معمول کی بات ہے لیکن اِن کا ذرائع ابلاغ میں شائع ہونا معمول کی بات نہیں۔ زیادہ تر جیل کے اندر جو کچھ ہوتا ہے اُس سے باہر کی دنیا بے خبر رہتی ہے جبکہ توجہ طلب یہ بھی ہے کہ اکثر لوگ قیدیوں کے لئے ہمدردی نہیں رکھتے اور اُن کے ساتھ سزاؤں کے علاؤہ بھی سخت برتاؤ رکھنے کی وکالت کرتے ہیں۔یہ پہلا موقع نہیں جب کسی جیل میں حکام اور قیدیوں کے درمیان لڑائی ہوئی ہو۔ اس طرح کا ایک واقعہ چند سال پہلے بھی پیش آیا تھا لیکن اعلیٰ حکام کی جانب سے اس کے محرکات اور مستقبل میں اِس کے اعادہ سے بچنے کے لئے خاطرخواہ سنجیدگی سے اصلاحات نہیں کی گئیں۔  وقت ہے کہ جیلوں کو حراستی مراکز کے بجائے اصلاحی مراکز میں ڈھالا جائے۔ حالیہ فسادات کے نتیجے میں جیل کی املاک کو بھی نقصان پہنچایا گیا ہے اور فسادیوں نے کال سینٹر‘ کلوز سرکٹ کیمروں‘ فلٹریشن پلانٹ اور فرنیچر نذر آتش کیا ہے جو اپنی جگہ قابل مذمت ردعمل ہے۔ اس واقعے کو ”ویک اپ کال“ کے طور پر لیا جانا چاہئے اور جلد از جلد جیل اصلاحات متعارف کروائی جانی چاہیئں۔ سب سے پہلے حالات بہتر بنانے کے لئے باقاعدگی سے جیل کا معائنہ ہونا چاہئے۔ جیل میں گنجائش سے زیادہ قیدیوں نہیں رکھنا چاہئے۔ معمولی جرائم اور زیرسماعت ملزم قیدیوں کو سزایافتہ یا عادی مجرموں کے ساتھ نہیں رکھنا چاہئے۔ جیل خانہ جات کے ساتھ جڑی مبینہ رشوت ستانی کا انسداد بھی ہونا چاہئے اور رشوت لیکر موبائل فون یا دیگر سہولیات فراہم کرنے والے جیل کے انتظامی نگرانوں (ملوث اہلکاروں) کے خلاف سخت کاروائی ہونی چاہئے۔ قیدیوں کو درپیش مسائل کا سننا اور اُنہیں حل کرنا بھی یکساں ضروری ہے۔ اگر قیدیوں کو جیل کے عملے اور سینئر افسروں کی جانب سے بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے‘ تو ایسے میں قیدیوں کے پاس سوائے احتجاج کوئی دوسرا حل (چارہ) نہیں ہوتا۔ پاکستان میں زیادہ تر جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدی ہیں جنہیں بنیادی سہولیات میسر نہیں ہیں یا اِن سہولیات کی مقدار و معیار ناکافی و غیرتسلی بخش ہے۔ اِس طرح کا طرزِعمل جیل خانہ جات کے مقاصد کے لئے نقصان دہ ہے۔ جیل خانہ جات ایسی جگہیں ہونی چاہئیں جہاں قیدیوں کو مجرم سے عادی مجرم بننے کی بجائے مستقبل میں اپنی زندگیاں بہتر بنانے کے لئے رہنمائی ملنی چاہئے۔ مناسب یا غیر منصفانہ وجوہات کی بنا پر قیدیوں کو سزا دینا اور اِس کے رد عمل میں اقدامات مسئلے کا حل نہیں۔ پاکستان بھر کی جیلوں کے لئے ایک طویل مدتی اور بہتری کے تصور سے منصوبہ سازی (اصلاحات) کی ضرورت ہے۔