اہم نوعیت کے غور طلب مسائل

آصف زرداری صاحب کی اس تجویز سے اس ملک کا ہر عوام دوست طبقہ اتفاق کرے گا کہ اس ملک میں محنت کش مزدور  طبقے کے افراد کی ماہانہ اجرت یا تنخواہ کم سے کم 35ہزار روپے ضروری ہے تب کہیں جا کر اس کے گھر کا چولہا گرم رہ سکے گا اور وہ  اور اس کے بال بچے فاقہ کشی کے عذاب سے بچ سکیں گے ان کو جو اجرت اب دی جا رہی ہے وہ تو ان کے ساتھ ایک مذاق ہے۔ہم تو اس بات کے قائل ہیں کہ ملک میں ایک ایسا مالی نظام وضع کیا جاے کہ جس میں ہر محنت کش کی کم سے کم تنخواہ کا میکینیزم کچھ اس طرح سے بنایا جائے کہ ہر محنت کش کا ماہانہ مشاہرہ ایک تولہ سونے کی مارکیٹ ویلیو کے ساتھ لنک کر دیا جائے بالفاظ دیگر سونے کی فی تولہ قیمت کے برابر اسے ماہانہ تنخواہ ملا کرے تب کہیں جاکر وہ سکھ کی زندگی گزارتے کے قابل ہو سکے گا۔برطانیہ بلکہ دنیا کے سائنسی میدان میں ترقی یافتہ ممالک تو ہر چیز پر ریسرچ کر کے اس کی اچھی اور بری باتوں کو بروقت اُجاگر کرتے رہتے ہیں۔ برطانیہ کا ہر سنجیدہ طبقہ اس حالیہ رپورٹ پر پریشان ہے کہ وہاں 41فیصد کمسن بچے سوشل میڈیا پر  نامناسب مواد تک رسائی رکھتے ہیں یہ انکشاف ہمارے لئے بھی  پریشان کن ہونا چائے یقینا اگر اسی قسم کا کوئی سروے اپنے ہاں بھی کیا جائے تو کوئی اچھی خبر نہیں آئے گی گیارہ سال سے لے کر 19 برس کی عمر بڑی نازک عمر قرار دی گئی ہے جس  کے دوران بچے کچے اذہان کے مالک ہوتے ہیں اور یہی وہ عمر ہے کہ جس میں انسان بے راہ روی کا شکار بہ آسانی ہوتاہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی بری چیز نہیں پر اس کا غلط استعمال نئی نسل کی بربادی کا باعث بن سکتا ہے۔ ماں باپ اپنے بچوں کے ہاتھوں میں موبائل سیٹ پکڑوا کے اس بات کا خیال بالکل نہیں کرتے کہ وہ دن رات موبائل سیٹ کے ساتھ جو چمٹ کے بیٹھے رہتے ہیں تو اس پر  وہ آخر کیا دیکھ رہے ہوتے ہیں۔کسی زمانے میں کہ جب ٹیلی ویژن نیا نیا امریکہ میں آیا تھا تو ایک سروے کے ذریعے وہاں کے کم سن بچوں سے پوچھا گیا تھا کہ آپ کو ممی ڈیڈی اور ٹی وی میں کون اچھا لگتا ھے تو 80 فیصد بچوں نے کہا تھا  ٹی وی۔ہمارا گمان ہے کہ اگر آج وطن عزیز میں اس قسم کا سروے کر کے چھوٹے بچوں سے پوچھا جائے کہ ان کو اپنے والدین زیادہ اچھے لگتے ہیں یا موبا ئل؟ تو ان میں اکثریت موبائل کا نام لے گی۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ مندرجہ بالا برطانیہ والی سروے رپورٹ سے سبق لے کر نہ صرف والدین سکولوں کے اساتذہ بلکہ حکومتی ارکان فوری طور پر ایسے اقدامات کریں کہ اس مسئلے کا حل نکالا جاسکے۔برطانیہ جیسے ملک میں وہاں کے چلڈرنز کمشنر نے اپنی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ آ ن لائن سیفٹی بل کو سخت کرے جب کہ اس ضمن میں ہمیں جیسے اس معاملے کی نزاکت کا احساس ہی نہیں۔