مشہور منصف اور سفرنامہ نگار مستنصر حسین تارڑ اپنے ایک سفرنامے میں لکھتے ہیں کہ بہت برس پہلے میں شمال کی کسی کوہ نوردی کی تھکن سے نڈھال سکردو سے گلگت کی جانب جا رہا تھا اور وہاں سکردو روڈ کی جان لیوا مسافتوں کے دوران سسی نام کی ایک آبادی کے پس منظر میں یکدم ایک شاندار برف پوش پہاڑ چٹیل چٹانوں کی اوٹ میں سے یوں اُبھرا جیسے کسی دیومالائی سمندر میں سے ایک سفید عفریت ابھرتا ہے اور یہ کوہ حراموش تھا...اس کا برف آثار‘ برف انبار‘ برف بار وجود اُبھرتا چلا گیا یہاں تک کہ وہ دریائے سندھ کی گونج پر حاوی ہوگیا... اسکی شاندار برفیلی عظمت نے مجھے موہ لیا... اے حراموش میں تجھے کبھی فراموش نہیں کرونگا.....اگر میں زندہ رہا تو...میں اب اتنے برسوں بعد حراموش سے کیا گیا وعدہ پورا کرنے جارہا تھا...جب متعدد طویل آپریشنوں کے بعد ڈاکٹر محمود ایاز نے مجھے نوید دی کہ تارڑ صاحب...اب آپ صحت مند ہوچکے ہیں تو میں نے ان سے کہا‘ کیا میں پہاڑوں پر جا سکتا ہوں کہ میرے لئے زندگی اور صحت کا مطلب ہے کوہ نوردی کے قابل ہوجانا...ڈاکٹر صاحب بھولے ڈاکٹر تھے ان کا خیال تھا کہ میں مری‘ سوات وغیرہ کی بات کرتا ہوں تو انہوں نے کہا ہاں آپ پہاڑوں پر جا سکتے ہیں‘ انہیں کیا پتہ تھا کہ میں نے حراموش کی بلندیوں کو سر کرنے کا قصد کر رکھا تھا...دراصل میرے کچھ ایسے دوست ہیں۔ کامران سلیم‘ عاطف سعید‘ ڈاکٹر احسن وغیرہ...چوتھا مرید جمیل عباسی کنڈیارو میں رہ گیا تھا...یہ وہ چار بیساکھیاں ہیں جو مجھ بوڑھے کو سہارا دے کر پہاڑوں تک لے جاتے ہیں...یوں جانئے کہ یہ وہ چار جن ہیں جو میری آبرو کے اشارے پر ”جو حکم آقا...“ پکارتے چلے آتے ہیں‘ ان کے سوا بابا شاہد زیدی تھا‘ لاہور کے سب سے نامور”زیدی فوٹو گرافر“ کا آخری چشم و چراغ...میری صبح کی سیر کے تین ساتھی‘ سرفراز ملک‘ تنویر خواجہ اور ڈاکٹر نسیم بھی میرے ساتھ ہولئے اگرچہ بعد میں بہت پچھتائے...میں زندگی میں پہلی بار تھاکوٹ‘ بشام کے راستے نہیں‘ ناران اور درہ بابو سر کے راستے گلگت جارہا تھا...بالاکوٹ سے ناران جانے والی شاہراہ نے مجھے حیران کر دیا... وہ پہاڑوں میں بل کھاتی ایک حیرت ناک موٹر وے تھی جس پر کاروں کا ہجوم تھا...... تو میں کھلے دل سے اقرار کرتا ہوں کہ یہ شاہراہ تعمیر کرکے نوازشریف نے مجھے خوش کردیا تھا‘ یہ2016ء کا ناران تھا‘ پرہجوم‘ دل آزار‘ ہوٹلوں کی بھرمار اور اہل ناران سیاحوں کا قتل عام کر رہے تھے... ناران کے داخلے پر سینکڑوں سفید ٹینٹ ایستادہ تھے... سیاح اپنے بچوں کو شب کی سردی سے محفوظ رکھنے کیلئے منہ مانگی قیمت ادا کررہے تھے... ہوٹلوں کے کمرے... دس ہزار... اور اگر سیاح بہت ہی مجبور ہے تو بیس ہزار...... میں نے اصطبل میں پارک شدہ ایک مرسیڈیز دیکھی اور پارکنگ کیلئے پانچ ہزار وصول کئے گئے... اگرچہ چند ایک معیاری ہوٹل بھی موجود ہیں لیکن انکی تعداد ذرا کم کم ہے...لیکن اسکے باوجود ناران کے بازار میں بہت رونقیں تھیں‘ اس برس پورے پاکستان نے شمال پر یلغار کردی تھی... لوگ اپنے شہروں سے فرار ہو کر کچھ لمحے سکون کے حاصل کرنے کیلئے یہاں چلے آئے تھے...میرا مشورہ تو یہی ہے کہ ناران کاغان مت جایئے..اور اگر جایئے تو کسی معیاری ہوٹل میں ایڈوانس بکنگ کروا کے گھر سے نکلئے...... ہم قدرے خوش نصیب ہوگئے تھے... میرے دوست شیرستان کی سفارش پر ہمیں ناران کے پی ٹی ڈی سی ہوٹل میں دوکمرے نہیں کمریاں مل گئی تھیں‘ اگرچہ میں بہت برسوں سے پی ٹی ڈی سی کے بورڈ آف گورنرز کا ممبر تھا‘ اختیارر کھتا تھا کہ کسی بھی ہوٹل میں دندناتا ہوا چلا جاؤں... ہوٹل کے بارے میں ایک تفصیلی رپورٹ تیارکرکے اسے کٹہرے میں کھڑا کردوں لیکن... مجھے یہ پسند نہ تھا... میں تو اس سرکاری حیثیت کا حوالہ بھی نہیں دیتا تھا‘ یوں بھی ہوٹل کے منیجرایک بھلے آدمی تھے... انہوں نے ہمارے کمروں بلکہ کمریوں کے سامنے کنہار کنارے ایک الاؤ روشن کردیا...اور اس شب اس الاؤ کی آگ میں ٹراؤٹ مچھلیاں پھڑکتی تھیں اور ان میں وہ ایک چاندی رنگت کی ٹراؤٹ بھی تھی جو میری بیٹی عینی نے بہت برس ہوچکے جب ہ بچی تھی شکار کی تھی....“ اس منتخب تحریر کا حاصل مطالعہ وطن عزیز کی سیاحت اور اس کے پنہاں حسن کی اہمیت کااحساس کرنا ہے،رب کریم نے ہمارے ملک کو جس فطری حسن سے نوازا ہے اس کی مثال بہت کم ہی مل سکتی ہے۔