یہ موسم چلے گئے تو ہم فریاد کریں گے

ہوا تیز ہے۔ہوا کی اس تیز طراری نے درختوں سے شاخوں کو اور شاخوں سے پھولوں پتوں کو اکھاڑ کر زمین بوس کردیاہے۔درخت تو موجود ہیں مگر ان کے ٹہنے سبزے سے عاری ہو چکے ہیں۔سردی توہے مگر ساتھ ساتھ گرمی بھی اپنا رنگ خفیہ طور پر دکھلا رہی ہے۔جنوری کے آخری دن گرمی نے اپنے ہونے کا ثبوت فراہم کر دیا ہے۔اس جاتے ہوئے ٹھنڈک کے موسم میں کہیں نیچے تہوں میں گرمی بھی بھڑک رہی ہے جس کی تپش اسی دن محسوس ہوئی۔ اس کے دو ایک روز پہلے بھی موسم نے انگڑائی لی تھی۔دھوپ تھوڑی دیر رہ جائے تو ہوا گرم ہو جاتی ہے۔پھر یہی ہوا شام کے پرچھائیوں کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ ٹھنڈی ہونے لگتی ہے۔ویسے اب موسم میں وہ کاٹ نہیں رہی جو پہلے تھی۔بارش نے تو اب اس سال بہت انتظار کروایا۔پھر اب بھی کہ جنوری گیا گزر مگر فروری میں بھی سنا ہے کہ بارش نے نہیں ہونا۔مارچ کے شروع میں اگر ابر باراں مہرباں ہو تو ہو۔ویسے پیش گوئیوں سے ہٹ کر بھی موسم کی تبدیلی کہیں گئی تو نہیں۔اچانک کچھ کا کچھ ہو جاتا ہے اور موسم کے محکمہ والے اپنا سامنہ لے کر رہ جاتے ہیں۔حالانکہ ہم کسان تو نہیں شہری بابو ہیں مگر ہمیں موبائل پر تازہ ترین موسم کی صورتِ حال روزانہ بتلائی جاتی ہے۔فروری سے پہلے ہی پوشیدہ طور پرگرمی کی جو علامات محسوس ہوئی ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اب کے گرمی بھی وقت سے پہلے ہی کہیں آ نہ جائے۔ عالمی طور پر موسموں  میں شدت آ چکی ہے۔مگر یہ تو ہونا ہے۔انسانوں نے اپنے تحفظ کے لئے اور اپنی زندگی کو سہولت دینے کی غرض  سے جو کچھ کیا اس کا نتیجہ خود انہوں نے ہی بھگتنا ہے۔بے وقت کی سردی اور بے وقت کی گرمی۔یہ بے وقت کی راگنی بج تو رہی ہے مگر اس کی آواز پرمتوجہ ہونے کے لئے کان نہیں بلکہ دماغ چاہئے۔درختوں کی ٹہنیاں تو جیسے سوکھ چلی ہیں۔یوں لگتا ہے کہ جیسے یہ ٹہنیاں کبھی ہری نہ ہوں گی۔ مگر یہ خیال ِ خام ہے۔کہیں بارش تو کہیں دھوپ او رکہیں برف باری کے مناظرہیں۔یار بیلی مری کی سیر کو گئے ہیں کہ وہاں جا کر روئی جیسے برف کے گالے ایک دوسرے کو اچھالیں۔ان کے تو اچھے دل ہیں اور حیرانی ہے کہ ان کا اتنا دل گردہ ہے کہ اس برفانی ہوا میں اور برفیلی رُت میں بھی انجوائے کریں گے۔مگر ہم بڈھے ٹھیرے تو برف کے نام سے ٹی وی پر خبروں میں دیکھ کر ہی اس دیار میں جانے سے کانپتے ہیں۔ آسمان پربادل آتے ہیں او رگھمبیر ہو جاتے ہیں اُمڈتے چلے آتے ہیں جیسے ہر طرف جل تھل مچا دیں گے۔مگر رات بھر رہتے ہیں او ردوسرے دن بھی شام تک اپنا گھنیرا جادو چلانے کی کوشش کرتے ہیں۔لیکن بوندا باندی کی حد تک ان کو اجازت تو ہے مگر اس سے آگے کی ان کے ہاں گنجائش نہیں۔آسمان پر بدلیاں مسلسل سفرمیں ہیں۔بادلوں کاآنا جانا لگا ہوا۔ انھیں کہ جن کو ابرِ باراں کی ضرورت ہے پریشانی لاحق ہے۔کیونکہ بارش کا نہ ہونا اور زیادہ ہونادونوں صورتوں میں فصلو ں کی خرابی کا سندیسہ لاتا ہے۔جنوری کے اختتام تک تو ٹھنڈ کا بھی راج رہا اب سردی نے خیمے لپیٹنے شروع کر دیئے ہیں۔اب دھوپ تلے جا کر بیٹھنے کی وہ شدید خواہش نہیں رہی جو گزرے دنوں میں تھی۔اب تو نیچے کمروں ہی میں بیٹھو تو گزارا ہو جاتا ہے۔مگر یہ آخری آخری دھوپ کی کرنیں ہیں کہ جن سے لطف اندوز ہوا جاسکتا ہے۔پھر ان برفیلی رُت کو یاد کریں گے۔کیونکہ آدمی کا کیا ہے گرمی ہو تو سردی کی یاد آتی ہے اورسردی آجائے اور چھا جائے تو پھر بھی چیخیں نکل جاتی ہیں۔گاہے گرمی کے ایام یاد آنے لگتے ہیں۔اس لئے کہ گرمی کا موسم اچھا ہوتا ہے مگر گرمی آئے تو الگ سے چیخ و پکار شروع ہو جاتی ہے۔سوچتے ہیں یار جوبھی ہو سرما سرماہے۔سردی اچھی ہوتی ہے۔آدمی بھی کبھی کیا کبھی کیا مانگتا ہے۔اس کی طلب کا دامن بہت وسیع ہے۔راہگیروں نے کوٹیاں اتار دی ہیں۔تین تھیں تو ایک رہ گئی ہے۔تن بدن پر گرمی نے شیڈ دیناشروع کر دئیے ہیں۔لاٹھی ٹیکتے ہوئے بزرگ بھی اب راہ پر رواں ہوتے ہیں تو کمبل اورچادریں اتار پھینک کر گھر سے نکلتے ہیں۔خیر سے گرمی کی دستک کی آوازیں آ رہی ہیں۔ مگر موجودہ وقت بھی گرمی پورے طور سے چھائی نہیں مارچ کے آخر میں رمضان ہے اور پھر اکیس مئی کے بعد گرمی نے اپنا پورے کا پورا قبضہ جما دینا ہے تب تک روزے اچھے گزر جائیں گے۔ تب کی تب دیکھی جائے گی۔ویسے موسموں کے بارے میں پہلے سے کہنا اس لئے درست نہیں کہ کیا پتا آنے والے دنو ں میں کیا ہو کیونکہ ”زمینِ چمن گل کھلاتی ہے کیا کیا۔ بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے“۔جانے آسمان کس وقت کون سا رنگ بدل لے کس کو پہلے سے کیا معلوم ہے۔