بھارت کا جنگی جنون

بھارت نے اپنے امسال کے دفاعی  بجٹ میں 13 فیصد اضافہ کر دیا ہے۔ اس اضافے کے پیچھے ظاہر ہے کہ پس پردہ امریکہ کا بھی ھاتھ ہو سکتا ہے جو بھارت کی ہلہ شیری کر کے اسے  چین کے خلاف استعمال کر رہاہے۔ بہر حال بھارت کے اس اقدام سے پاکستان بھی لاتعلق  نہیں رہ سکتا ہمیں بھی اپنی دفاعی ضروریات کا درست اندازہ لگا کر افواج پاکستان کو جدید ترین اسلحہ سے لیس کرنا ہوگا۔اس جملہ معترضہ کے بعد اب کچھ دیگر اہم امور کا تذکرہ کرتے ہیں۔خیبر پختونخوا کے گورنر کے اس بیان سے کوئی بھی اختلاف نہیں کر سکتا کہ بلدیاتی نظام کو مفلوج کرناظلم و زیادتی ہے اس ضمن میں عرض ہے کہ وطن عزیز میں کئی کئی مرتبہ لوکل گورنمنٹ کا نظام رائج کرنے کی کوشش کی گئی پر ہر مرتبہ کچھ وجوہات کی بناء پر یہ بیل منڈھیر نہ چڑھ سکی اور اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کے ثمرات سے  عوام بھر پور انداز میں استفادہ نہیں کر سکے۔ یہ الگ بات ہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا اس لحاظ سے دوسرے صوبوں کیلئے ایک قابل تقلید مثال ہے کہ یہاں پر بلدیاتی اداروں کے انتخابات بھی دوسرے صوبوں کے مقابلے میں وقت پر ہوتے آئے ہیں۔بین الاقوامی منظر نامے پر جنگ کے منڈلاتے بادل چھٹتے نظر نہیں آرہے۔ایک طرف روس اور یوکرین کا تنازعہ کم ہونے کی بجائے شدت اختیار کرتا جارہا ہے تو دوسری طرف چین اور روس کے خطرے کے خلاف جاپان اور نیٹو کا اتحادایک اہم پیش رفت ہے  جاپان کے دورے پر آئے ہوئے نیٹو کے  سیکرٹری جنرل سٹولٹن برگ نے خبردار کیا ہے کہ بیجنگ یوکرین میں ہونے والی پیش رفت پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے اور وہ اس صورت حال سے سیکھ رہا ہے جو اس کے مستقبل کے فیصلوں پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔انہوں نے یہ بات جاپان کے وزیر اعظم فومیو کیشیدا کے ساتھ ملاقات کے بعد کہی۔جاپان کے وزیر اعظم سے ملاقات سٹولٹن برگ کے ایشائی ممالک کے دورے کا ایک حصہ تھی جس کا مقصد جمہوری اتحادیوں کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینا تھا۔انہوں نے کہا کہ ”جو آج یورپ میں ہو رہا ہے وہی کل مشرقی ایشیا میں بھی ہو سکتا ہے۔ اس لیے ہمیں متحد اور مضبوط رہنا چاہئے۔آزادی اور جمہوریت کے لیے ایک ساتھ ڈٹے رہنا چاہیے۔“سٹولٹن برگ اور کیشیدا نے کہا کہ وہ چین اور روس کے درمیان بڑھتے ہوئے تعاون سے پریشان ہیں۔ انہوں نے ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ ہم چین کے ساتھ روس کے بڑھتے ہوئے فوجی تعاون پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں جس میں جاپان کے آس پاس مشترکہ آپریشنز اور مشقیں بھی شامل ہیں۔سٹولٹن برگ نے سیؤل میں جنوبی کوریا سے کہا کہ وہ یوکرین کے لئے فوجی تعاون میں اضافہ کرے۔انہوں نے جاپان کی طرف سے یوکرین کے لیے ”ٹھوس مؤقف“ اور ”کافی حمایت“ کی تعریف کی۔ٹوکیو نے جی سیون کے شراکت داروں کے ساتھ مل کر ماسکو پر پابندیاں عائد کر دی ہیں اور دفاعی ساز و سامان بھیجنے اور جنگی تنازع سے بچ کر وہاں سے نکلنے والے افراد کو پناہ دینے کے اقدامات کیے ہیں۔سٹولٹن برگ نے کہا کہ انہوں نے اور کشیدا نے شمالی کوریا کے ”اشتعال انگیز رویے“ پر بھی تشویش کا اظہار کیا جس میں جوہری سرگرمی سے لے کر بیلسٹک میزائل کے تجربات جیسی سرگرمیاں شامل ہیں۔سٹولٹن برگ نے کہا کہ چین ہمارا ”حریف“ نہیں ہے، لیکن انہوں نے ایشیا میں اس کی بڑھتی ہوئی فوجی موجودگی کے بارے میں خبردار کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس موجودگی میں جوہری ہتھیار، پڑوسیوں پر دھونس، تائیوان کو دھمکیاں دینا اور اس کے ساتھ ساتھ نیٹو اور یوکرین کے بارے میں غلط معلومات پھیلانابھی شامل ہے۔کیشیدا نے کہا کہ جاپان نیٹو کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط بنانے کی کوششوں کے ایک حصے کے طور پر ایک آزاد نمائندہ دفتر قائم کرے گا۔کشیدا نے مزید کہا کہ ان کا ملک اتحاد کی طرف سے منعقد کی جانے والے اعلیٰ سطحی اجلاسوں میں باقاعدہ شرکت پر بھی غور کرے گا۔جاپان نے دسمبر میں کئی دہائیوں کے بعد اپنی دفاعی اور سلامتی کی حکمت عملی میں بڑی تبدیلی کا اعلان کیا ہے۔نئی حکمت عملی میں مالی سال 2027 تک دفاعی اخراجات کو جی ڈی پی کے دو فیصد تک بڑھانے کے منصوبے شامل ہیں جس سے جاپان کو نیٹو کے رکن ممالک کے لئے رہنما خطوط کے مطابق لایا جائے گا۔اس طرح دیکھا جائے تو روس کے یوکرین پر حملے کے بعددنیا میں بہت سی تبدیلیاں واقع ہو رہی ہیں۔ جو یورپی ممالک غیر جانبدارانہ پالیسی پر کاربند رہے وہ اب نیٹو کے قریب آرہے ہیں اور ڈنمارک و سویڈن کی طرح کئی ممالک نیٹو میں شمولیت کیلئے تیار ہیں۔ اب جاپان نے بھی ماضی کے برعکس جارحانہ اقدامات کرنا شروع کیا ہے جو اس لئے ایک بہت بڑی تبدیلی ہے کہ اب تک جاپان جارحانہ  پالیسی کا قائل نہیں تھا۔وہ محض دفاعی پالیسی پر کاربند رہا۔یہ صورتحال جرمنی کی بھی رہی۔ تاہم اب یہ دونوں ممالک نہ صرف جارحانہ دفاعی پالیسیوں پرکاربند ہیں بلکہ دیگر ممالک کو بھی اب اسلحہ برآمد کررہے ہیں جس کی مثال جرمنی کی ہے جو اب یوکرین کو ٹینک فراہم کررہا ہے۔یہ سارا منظر نامہ یہ ثابت کرنے کیلئے کافی ہے کہ دنیا امن کی بجائے جنگ کی طرف جارہی ہے اور اس ہر کہانی کے پیچھے اگر کسی ملک کا ہاتھ ہے تو وہ امریکہ ہے۔ یوکرین اور روس جنگ بھی امریکی پالیسیوں کا نتیجہ ہے جس نے یوکرین کی ہلہ شیری کرتے ہوئے اسے روس کے خلاف فرنٹ لائن ملک بنانا چاہا۔ دوسری طرف جاپان کی چین اور روس کے خلاف نیٹو کے قریب ہونے میں بھی امریکہ کا ہاتھ ہے۔