(روزنامہ آج میں شائع ہونے والے کالم جو اپنی اشاعت پر قارئین نے بے حد پسند کئے، ان سدا بہار کالموں سے انتخاب کا سلسلہ قارئین کی دلچسپی کے لئے شروع کیا گیا ہے‘ ان کالموں میں اعدادوشمار اور حالات کالم کی تحریر کے وقت کی عکاسی کرتے ہیں).................
حضرت علامہ نے اپنے اشعار میں فتح قسطنطنیہ کے پس منظر میں کہا تھا
نکہت گل کی طرح پاکیزہ ہے اس کی ہوا
تربت ابو ایوب انصاری سے آتی ہے صدا
اے مسلماں!ملت اسلام کا دل ہے یہ شہر
سینکڑوں صدیوں کی کشت و خوں کا حاصل ہے یہ شہر
غیر منقسم ہندوستان میں تحریک خلافت ایک ایسی تحریک رہی جس نے آزادی کے متوالوں کو امت مسلمہ میں آئے ہوئے غم و اندوہ کے دنوں کو صبر کیساتھ گزارنے اور امت کے غم میں ہندوستان کے مسلمانوں کو شامل ہونے کا موقع فراہم کیا مولانا شوکت علی اور مولانا محمد علی اگرچہ اس تحریک کے مرکزی کردار تھے اور جن کیلئے سارے ہندوستان میں بی اماں کے یہ الفاظ گونجتے تھے کہ بیٹا جان خلافت پہ دیدو۔ ہندوستان بھر کے اندر جب پچھلی صدی کی تیسری دہائی میں یہ تحریک برپاتھی تو اس نے نہ صرف ترکیوں کی خلافت کیساتھ مسلمانان ہند کو جوڑے رکھا بلکہ پشاور پورے ہندوستان سے ہجرت کر کے آنے والوں کیلئے ایسا مرکز بن گیا جہاں سے تحریک خلافت کے عمائدین قافلے بنا بنا کر افغانستان کی جانب بھیجتے رہے۔پشاور کا مرکز نمک منڈی جہاں تاجروں کی بڑی بڑی سرائیں تھیں وہاں ان مسلمانوں کیلئے استراحت اور خوردونوش کا اہتمام ہوتا‘پشاور کا ایک متوالہ عبدالرحمن بذات خود جنگ بلقان میں شرکت کیلئے گیا تھا جسے ترک دانشور آج بھی یاد کرتے ہیں۔یادش بخیر وہ ترکی یا رومی ٹوپی جسے ہمارے اکابرین اپنی عظمت کا نشان سمجھتے بالآخرمرحوم نوابزادہ نصر اللہ خان کیساتھ ہی منظر سے غائب ہو گئی مگر تاریخ کے اوراق آج بھی اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ ہندوستان بالخصوص پاکستان کے مسلمانوں کا جو ربط و تعلق ترکی کے ساتھ رہا وہ آئندہ بھی موجود رہے گا۔ ہمیں اپنے چنددوستوں کے اصرار پر اسی شہر استنبول میں کچھ شب و روز گزارنے کا موقع ملا۔ ہمارے یہ دوست ڈاکٹر خالد محمود اور ڈاکٹر ناصر حمید جو اسوقت انگلینڈ کے معرو ف ریڈیالوجسٹس میں سے ہیں نہ صرف ہمارے ہم سفر رہے بلکہ برادر ڈاکٹر امجد‘برادر نعیم بخاری‘برادر طارق صوفی اور ڈاکٹر ابرار جو پشاور کے معروف ماہر امراض چشم ہیں اور برادر ڈاکٹر ساجد نذیر جو اسلام آباد کمپلیکس ہسپتال کے ہیڈ آف نیورو سرجری ڈیپارٹمنٹ ہیں۔ ہماری اپنی ہی ایک مجلس رہتی
ہے جو پشاور میں تو اوسطاً ہم ہر دو مہینے بعد لگا لیتے استنبول چونکہ ایسی جگہ تھی جس کیلئے ہمیں چھ ماہ سوچنا پڑا مگر استنبول میں قدم رکھتے ہی طیب اردگان اور اسکی قوم سے جو تعلق قائم ہوا وہ روحانی طور پر آخری سانس تک برقرار رہے گا۔ ہم جس جگہ رہ رہے تھے یہ شہر کا قدیم حصہ تھا اور چونکہ استنبول میں لاکھوں کی تعداد میں سیاح آتے ہیں لہٰذا ان کے گھر ہوٹل کے تمام تر لوازمات پورا کرتے ہیں۔مگر ایشیاء کے اس حصے میں بھی زندگی یورپ کی طرح ہی ہے اور ہمیں اس کا تجربہ وہاں کی نوجوان نسل کو دیکھ کر ہوا۔استنبول کی عمارات میں مساجد‘ محلا ت‘عجائب گھر تمام کے تمام اپنی قدامت پر استدلال کرتے ہیں۔مثلا ًگلاٹا ٹاور ہی کو لیجئے 15 صدیوں پرانا ہے جب اس پر چڑھ کر لائٹ مین لالٹین جلاتا تھا۔ یہ لالٹینیں دور سے آنے والے بحری جہازوں کوشہر کی شناخت دکھاتی۔