بدلتی دنیا اور یکساں رویئے  (سید ابو یاسر)

دنیا بد ل گئی ہے تاہم کچھ چیزیں اب بھی بدستور اسی طرح ہیں جس طرح کے گزرے دور میں تھے، ان میں سے ایک طاقتور اقوام کی طرف سے کمزور اقوام کا استحصال ہے۔ رضا علی عابدی ماریشس پر انگریزوں کے قبضے کے باوجود فرانس کے لوگوں کی وہاں کی معیشت پر قبضے کی داستان وہاں کے ایک شہری قاسم ہیرا کے توسطے سے لکھتے ہیں کہ ہیراکیاآپ کے والد کا نام تھا؟جی ہاں میرے سارے بزرگوں کانام ہیراتھا’ان کا بھی جو پہلی بار سمندری جہاز سے اس سرزمین پر اترے تھے؟ جی ہاں‘ کیا انکا ریکارڈ بھی محفوظ ہے رجسٹروں میں؟ جی‘ آپ نے دیکھا ہے؟ جی‘ بس اس سے زیادہ اگر کسی نے اپنے بزرگوں کے متعلق بتایا تو وہ کریم بلا تھا۔ اکثر نے بات کا رخ ادھر جانے نہیں دیا۔ قاسم ہیرا علی گڑھ کے تعلیم یافتہ ہیں‘ ان کے والد بڑے اچھے مصور تھے اور شیشے کی پشت پر نہایت عمدہ روغنی تصویر بناتے تھے جو فریموں میں آراستہ آج تک ان کے چھوٹے سے آرام دہ مکان کے ہر کمرے اور راہ داری میں لگی ہیں۔ ’ہیرا صاحب‘ یہ جہازی بھائی کون تھے‘ میرا یہ پوچھنا تھا کہ تاریخ کے دفتر کھل گئے‘ ہوا یہ کہ ماریشس میں سب سے پہلے عرب آئے۔ یہ چھٹی صدی کے وسط کی بات ہے۔ ان کے بعد واسکوڈی گاما ادھر سے گزرا۔ پھر پرتگالی آئے‘ ان کے بعد ولندیزی آئے۔ نہر سوئز تو اس وقت تھی نہیں‘ہندوستان اور مشرق بعید جانے والوں کو راس امید کا چکر کاٹ کر ادھر ہی سے گزرنا پڑتا تھا۔ ولندیزیوں نے اس جزیرے پر اپنا جھنڈا گاڑا اور یہاں کی زمین سے دولت اگانے کے لئے باہر سے غلام لانے شروع کئے، ایک اور مقام پر رضا علی عابدی  ماریشس کے مختلف علاقوں کے ناموں کی تفصیل میں لکھتے ہیں‘ماریشس کی انتہائی شمالی نوک کا نام بھی دلچسپ ہے ”راس بد نصیبی“ کہتے ہیں کہ یہاں سمندری جہاز ساحل سے ٹکرا کر پاش پاش ہوجایا کرتے تھے اب سمجھ میں آیا کہ براعظم افریقہ کے جنوبی گوشے کا نام راس امید کیوں ہے‘ وہاں پہنچ کر مغرب کے جہاز رانوں کی امید بندھ جاتی تھی کہ اب ہندوستان دور نہیں‘ شمالی ماریشس کے اس سفر کے دوران گڈ لینڈز کا قصبہ بھی راہ میں آیا‘ حیرت ہے یہ نام فرانسیسی زبان میں کیوں نہیں‘ گڈ لینڈز میں ہندوؤں کا ایک بڑا مندر ہے اسلئے وہاں بھی سیاح نہیں جاتے‘ پجاری جاتے ہیں‘اس علاقے میں دبے ہوئے اور پانی میں ڈوبے ہوئے خزانوں کی کہانیاں بہت عام ہیں‘ یہیں وہ لکھ پتی ہندوستان خاندان آباد ہے جن کا دادا کھیتوں میں مزدوری کرنے آیا تھا‘ وہ واحد ہندوستانی محنت کش تھا جسے پتھروں کے نیچے واقعی سونے کے سکے ملے تھے‘ یعنی کوئی دبا ہوا خزانہ اس کے ہاتھ لگ گیا تھا‘ اب یہ لوگ نہ صرف زمینوں اور کھیتوں کے مالک ہیں بلکہ بڑے تاجر اور کارخانے دار بھی ہیں۔ ان منتخب اقتباسات کا حاصل مطالعہ رضا علی عابدی کا منفرد طرز تحریر اور اسلوب ہے جس کی بناء پر پڑھنے والا آخری لفظ تک پڑھے بغیر نہیں رہ سکتا۔