جنسِ گراں مایہ

 جو روانی ٹریفک کی تھی۔وہ چند روز پہلے تھی۔اب کچھ روز ہوئے سڑکوں پر وہ رونق اور چہل پہل نظر نہیں آتی۔ جانے اس کی کیا وجہ ہو۔ مگر جو بھی ہو معلوم نہیں۔لیکن غور سے دیکھا جائے تو کچھ روز قبل پٹرول کو جو آگ لگی اس نے سب کچھ جلا ڈالا ہے۔اتنی چھلانگ اور اتنی بڑی چھلانگ کہ جس کو برداشت کرناصرف عام آدمی کے بس کی بات نہیں۔بلکہ وہ جو کھاتے پیتے اور پلاتے ہیں ان کو پروا نہیں ہوتی تھی۔وہ بھی از حد دشواری کا شکار ہیں۔مگر گھومتے پھرتے لوگ ہیں جو مزدوری کرنے والی گاڑیاں ہیں یا اپر کلاس کے لوگوں  کی۔ ۔ باقی تو مڈل کلاس والے گئے اپنے گھروں کے اندھیروں میں لوٹ گئے ہیں۔ یہاں اب اگر ٹریفک میں گاڑیاں نظر آتی ہیں توصاحبِ حیثیت مالکان کی گاڑیاں ہیں۔ یا پھر ان کی ہیں جنھوں نے ارزاں قسطوں پر بینکوں سے نکلوا رکھی ہیں۔مگر جو قسطوں کی گاڑیاں ہیں ان میں پٹرول بھی تو ڈالنا ہے دو ہزار کا پانچ ہزار کا تیل بھلا کیا کام کرے گا۔ بائیک میں تو چلو پانچ سو کا ڈال دو تو شاید ایک دن چل جائے مگر بڑی گاڑی میں پانچ ہزار کا پٹرول جیسے اونٹ کے منہ میں زیرہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ چند روز ہوئے سڑکوں  پر گاڑیاں کم ہی دکھائی دیتی ہیں۔بائیک سوار بھی کم ہیں۔کیونکہ ہر ایک کے پاس اپنی حسبِ استطاعت گاڑی ہے جس میں وہ اپنی جیب کودیکھ کر پٹرول ڈالتا ہے۔۔ ایسے میں جائیں تو کہاں جائیں۔ جب اعلی طبقے والے بھی شکایت کنندہ ہیں تو نچلے طبقے والے کی تو بات ہی نہ کریں۔پھر درمیانے طبقے والے نہ تو مانگ سکتے ہیں اور نہ تو اپرکلاس والوں کی طرح شاہانہ خرچہ کرسکتے ہیں۔فراز نے کیا خوب کہا ہے ”چپ چاپ اپنی آگ میں جلتے رہو فراز۔ دنیا تو عرضِ حال سے بے آبرو کرے“  یہ درمیانی طبقے والے کس کو فریاد کریں۔”شمع کی مانند اہلِ انجمن سے نے نیاز۔ اکثر اپنی آگ میں چپ چاپ جل جاتے ہیں لوگ“۔ یہ وہی  لوگ ہیں جن کو مڈل کلاس یا درمیانہ طبقہ اور سفید پوش کے مختلف نام دیئے جاتے ہیں۔پھر جب پٹرول مہنگاہوتا تو ظاہر ہے کہ دکانوں پر پڑا ہوا ہر مال خواہ کچھ بھی ہو مہنگے نرخوں فروخت ہوگا۔ کیونکہ دکانوں پر جو کچھ بھی آتاہے وہ گاڑیوں میں لد کر اندرونِ شہر سے آتا ہے یا بیرون از شہر درآمد ہو تا ہے۔جس کی وجہ سے مال گاڑیوں والے پٹرول مہنگاہوجانے کو ہتھیار بنا کر سفر خرچہ دگنا سے تگنا مانگیں گے۔پھر ٹرانسپورٹ والو ں نے تو پرسوں ہی سے اپنے نرخ اور کرایے بڑھا دیئے ہیں۔ پھراس پر بھی تو بس نہیں ۔ کیونکہ ڈالر بھی اونچی اُڑان بھر کر کہاں سے کہاں جا پہنچا ہے۔اس کے ساتھ سونادو لاکھ سے اوپر چلا گیا ہے۔بازاروں میں سونا شوکیسوں میں پڑا ہوا ہے مگر اس کے خریدار دستیاب نہیں ہیں۔شہریوں کی قوتِ خرید روز بروز جواب دے رہی ہے۔کیا خریدیں کیانہ خریدیں۔میرا خیال ہے کہ اگر یہی حال رہا تو شہریوں میں ایک رواج خود بخود مشہور ہوگا اور وہ یہ ہوگا کہ یہ لوگ چاندی کے بنے زیورات کو ترجیح دیں گے۔کیونکہ اس کے سوا کوئی اور چارہ جو نہیں۔ صرف پٹرول ہی کی بات تو نہیں ڈالر کو کون لگام ڈالے گا اور سونے کو آگے بڑھنے اور اوپر جانے سے کون روکے گا۔ یہ تو مارکیٹ کا اصول ہے کہ ڈیمانڈ اور پھرسپلائی ہوتی ہے۔ جب ڈیمانڈ زیادہ ہوگی تو ازخود سپلائی مہنگے نرخوں ہوگی۔ جب لوگ مہنگی چیزوں کا استعمال ترک کردیں تو دیکھیں پھر مہنگی اشیاء آناً فاناً کیسے سستی نہیں ہوتیں۔اس میں ہم استعمال کرنے والوں گاہکو ں کا بھی قصور ہے۔ہم لوگ ہر مہنگی سے مہنگی چیز ضرور خریدیں گے۔عام لوگ نہیں خرید پاتے اور خاص لوگ تو ہر وقت بطورِ گاہک موجودہوتے ہیں۔جو مارکیٹ کو مہنگا کرنے میں اہم کردار اداکرتے ہیں۔وہ اگر اپنا کردار نبھائیں اور آپس میں اتفاق کرکے گراں چیزوں کی خرید ترک کر دیں تو گراں اشیاء دنوں میں سستی ہوکر بازاروں میں موجود ہوں گی۔۔۔