جنوری دوہزارتیئس سے متعلق ’افراط زر‘ کے اعداد و شمار اور معاشی پیشگوئیاں زیادہ خوشگوار نہیں ہیں۔ جنوری میں افراط زر کی شرح 27.6 فیصد رہی جو دسمبر دوہزاربائیس کے مقابلے میں ماہانہ بنیادوں پر قریب دس فیصد زیادہ ہے اور اڑتالیس سالوں میں مہنگائی کی بلند ترین سطح قرار دی گئی ہے۔ دوسرے لفظوں میں‘ پاکستانیوں کی اکثریت معاشی پریشانیوں کے جس دور سے گزر رہی ہے یہ سال 1975ء کے بعد سے سخت ترین ہے۔ توجہ طلب ہے کہ 1975ء میں پاکستان میں افراط زر کی شرح قریب اٹھائیس فیصد تک جا پہنچی تھی تاہم اُس وقت بھی موجودہ حالات کی طرح صورتحال اِس حد تک خراب نہیں تھی۔ مہنگائی سے متعلق حکومتی اعدادوشمار اور مہنگائی کے زمینی حقائق و صورتحال قطعی مختلف ہے۔ بنیادی ضروریات کی ایسی درجنوں اشیا ء ہیں جن کی قیمتوں میں گزشتہ چند ماہ کے دوران 100 فیصد سے زیادہ اضافہ ہو چکا ہے اور مزید اضافے کا رجحان جاری ہے۔ ظاہر ہے کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے روپے کی بے تحاشہ کمی سے لے کر پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے تک‘ جو کچھ دیکھنے میں آ رہا ہے وہ کبھی بھی نہیں دیکھا گیا اور شاید یہی وجہ ہے کہ مہنگائی جو کہ ہمیشہ ہی سے رہی ہے لیکن اِس مرتبہ اِس کی پکڑ شدید ترین اور ناقابل یقین ہے۔ گیس اور بجلی کے نرخوں میں مزید اضافہ کسی بھی وقت متوقع ہے‘ جس کے بعد شنید ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں پر نظرثانی کی جائے گی۔ کیا مہنگائی کے ساتھ معاشی ترقی ممکن (حاصل) ہو سکے گی؟مہنگائی معیشت کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے سے پہلے پاکستان کو افراط زر کی لہر کا رخ موڑنا ہوگا۔ خاص طور پر یہ دیکھتے ہوئے کہ جنوری میں افراط زر مارکیٹ کی توقعات سے زیادہ تھی جو بنیادی طور پر چھبیس سے ستائیس فیصد کے درمیان تھی۔ مرکزی بینک (سٹیٹ بینک آف پاکستان) نے مارچ میں ہونے والی اپنی پالیسی کے اگلے تکرار میں پالیسی ریٹ میں ڈیڑھ سو سے دوسو بیسس پوائنٹس کا اضافہ کیا جو مہنگائی پر قابو پانے کی کوششوں کا حصہ تھی لیکن یہ کوشش میں خاطرخواہ کامیاب ہوتے دکھائی نہیں دے رہی۔یہ الگ بات ہے کہ اس وقت محض پاکستان ہی نہیں جو مہنگائی سے نبرد آزما ہے بلکہ پوری دنیا میں مہنگائی کی لہر آئی ہوئی ہے جس سے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر دونوں قسم کے ممالک متاثر ہیں۔برطانیہ ہو یا امریکہ، جرمنی ہو کہ فرانس ہر جگہ مہنگائی نے دہائیوں کے ریکارڈ توڑ دئیے ہیں۔ عام پاکستانی بجلی و گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھنے سے اِس لئے بھی متاثر ہے کہ پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں کئی گنا زیادہ اضافہ کر دیا گیا ہے جبکہ اشیاء و اجناس کی نقل و حمل پر اٹھنے والے اخراجات میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے جو اب تک اکتیس فیصد سے زیادہ اضافہ ہے اور بہت سی اشیا ء جن میں روزانہ کی ضروریات شامل ہیں‘ سفری و نقل و حمل کے اخراجات میں اضافے کی وجہ سے مہنگی ہو رہی ہیں۔ دوسری طرف اپریل دوہزاربائیس سے جاری سیاسی عدم استحکام نے الگ سے غیریقینی کی صورتحال پیدا کر رکھی ہے جس سے مافیاز فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔ عوام کا مطالبہ ہے کہ سیاسی عدم استحکام ترجیحی بنیادوں پر ختم ہونا چاہئے۔ جو بھی حکومت ہو اسے سمجھنا چاہئے کہ اب وقت آگیا ہے کہ وہ اپنے وعدے پر پورا اتریں اور عوام کو ہر ممکن حد تک ریلیف دیا جائے۔ کم آمدنی رکھنے والے طبقات کے مفادات کا تحفظ کرنے کے لئے بھی اقدامات دیکھنے میں آنے چاہیئں۔ متوقع منی بجٹ‘ بناتے ہوئے اُن طبقات کے مفادات کا زیادہ خیال رکھا جائے جو مہنگائی سے پہلے ہی متاثر ہیں۔ سیاست اور حکومت چلتے رہیں گے تاہم پاکستان کو جن غیر معمولی حالات کا سامنا ہے اُن میں سیاسی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے غیرمعمولی کارکردگی کے مظاہرے کی ضرورت ہے۔ معاشی اصلاح اور اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے لئے حقیقی و معنوی سیاسی اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوششیں تیز کرنی چاہیئں کیونکہ سب سے زیادہ ضروری یہی ہے کہ قومی آمدنی بذریعہ ٹیکسیز بڑھانے کے لئے غریب طبقات پر مہنگائی کا مزید بوجھ نہ ڈالا جائے۔