آٹا بنیا دی ضرورت ہے خا ص طور پر پا کستان میں آٹا لو گوں کی روز مرہ خوراک کا اہم حصہ ہے‘ غریبوں کے گھروں میں صابن، شیمپو، ٹو ٹھ پیسٹ‘ سپرے‘ لو شن‘ کریم اور باقی چیزوں کے استعمال کا کوئی تصور نہیں ہے اگر مزدوری ملے اور پیسہ ہاتھ آئے تو سبزی اور دال کے بارے میں سو چا جا تا ہے‘ اگر دو چار پیسے مزید ہاتھ آئیں تو انڈا‘ مر غی اور گوشت کے نا م یا د آجا تے ہیں‘ غریب کیلئے گندم‘جوار یا جو کا آٹا بہت بڑی نعمت ہے‘ صدر ایوب کے دور میں جب امریکہ سے گندم در آمد کی گئی تو اونٹ کے گلے میں ”امریکہ تیرا شکریہ“ کی تختی چسپاں کر کے اس کی تصویریں اتروا ئی گئیں یہ تصویریں پا ک امریکہ تعلقات پر شائع ہونے والی کتابوں میں تواتر کے ساتھ چھپتی آرہی ہیں امریکہ کے نا ئب صدر لنیڈن جا نسن نے پا کستانی سار بان بشیر احمد کو کرا چی سے واشنگٹن بلا یا اور اُسے ذا تی دوست کا در جہ دیا سندھ، پنجا ب اور وسطی خیبر پختونخوا کا نہری نظا م بھی گندم کی فصل بڑھا نے کے لئے بچھا یا گیا‘ ورسک، منگلا اور تربیلا کی بجلی آنے کے بعد ٹیوب ویلوں کی مد د سے مزید پا نی فراہم کر کے وطن کے اندر خوراک کی کمی دور کر نے پر تو جہ دی گئی‘ جنرل ضیا ء الحق کے دور میں پا کستان گند م برآمد کرنے والا ملک بن گیا آپ چوک یا د گار سے کریم پورہ، گھنٹہ گھر‘ بازاکلاں یا مینا بازار کی طرف روانہ ہو جا ئیں تو بائیں طرف چار تندور نظر آتے ہیں ہر تندور کے سامنے غریبوں، مسکینوں اور نا داروں کی لمبی قطار ہوتی ہے خدا کا کوئی بندہ آکر 100یا 200 روٹیوں کے پیسے دے جا تا ہے تو روٹیاں تقسیم کی جا تی ہیں‘پشاور کے شہری بتا تے ہیں کہ یہ سلسلہ 1960ئکے عشرے میں آنے والے قحط اور افلا س کے وقت شروع ہو اتھا اب تک چل رہا ہے‘نہ سخاوت کرنے والوں میں کمی آئی اور نہ روٹی کی قطار میں لگنے والے کم ہوئے‘تازہ ترین رپورٹ کے مطا بق اقوام متحدہ نے خبر دار کیا ہے کہ اس سال پوری دنیا میں قحط کا خطرہ ہے پاکستان کے حوالے سے عالمی بینک نے جو اعداد وشمار جا ری کئے ان اعداد و شمار کی رو سے پا کستان میں 60 لاکھ کی آبادی کو غذا ئی قلت، بھوک اورا فلا س کا سامنا ہے ما ہرین نے گذشتہ سال کے سیلا ب کو اس کی بڑی وجہ قرار دیا، دیگر وجو ہا ت میں عالمی حدت‘ مو سمی تغیر شامل ہیں ما ہرین نے سندھ اور بلوچستان میں کھڑی فصلوں کی بر بادی کو قحط کا بڑا سبب قرار دیا ہے‘رپورٹ کی رو سے پنجا ب اور خیبر پختونخوا کی آبا دی کو بھی قحط کی صورت حال کا سامنا ہو سکتا ہے اب کر اچی اور کوئٹہ سے لے کر گلگت بلتستان، چترال اور خیبرتک ہر شہر‘ ہر ٹاؤن‘ قصبہ اور گاؤں میں آٹے کے لئے لو گوں کی لمبی قطاریں دیکھی جا تی ہیں ان قطا روں کی تصویر یں میڈیا پر بھی آرہی ہیں دوسال پہلے آٹا 40روپے کلو تھا اور ہر جگہ دستیاب تھا 2023ء میں آٹا 70روپے کلو ہے اور دستیاب بھی نہیں گاؤں کی مسا جد سے جس طرح جنا زے کا اعلا ن ہوتا ہے اسی طرح آٹے کا اعلا ن ہو تا ہے کہ آج جمعرات کو فلاں محلہ میں آٹے کی مزدا آئے گی اور لوگ سارا دن آٹے کی مزدا کے انتظار میں گذار دیتے ہیں دو سال پہلے لو گ سبزی کی مہنگا ئی کا ذکر کر تے تھے، گوشت اور انڈوں کی مہنگا ئی پر احتجا ج کر تے تھے آج لو گ آٹے کی قلت، آٹے کی مہنگا ئی اور آٹے کی نا یا بی کا رونا روتے ہیں۔
جب آدمی کے پیٹ میں آتی ہیں روٹیاں
پھولے نہیں بدن میں سما تی ہیں روٹیاں