ناصر علی سید اپنی کتاب ”ادب کے اطراف میں“ میں لکھتے ہیں کہ ہر دور اپنے ساتھ جہاں اپنے ستارے لے کر آتا ہے وہاں زندگی کے طور طریقے بھی کچھ کے کچھ ہو جاتے ہیں انسان کے بنیادی مسائل اور ضروریات تو اب بھی کل ہی کی طرح ہیں البتہ وسائل کی شکل و صورت بدل گئی ہے اور ضروریات زندگی کے حوالے سے سورج میں بھی ایک واضح تبدیلی آئی ہے البتہ نئے زمانے کی نئی سہولتیں بہت حد تک انسان کو پریشانی سے بھی ہم کنار کر رہی ہیں حجروں کی زندگی کی خوبصورتی کو ڈرائنگ روم کھا گیا اور دوستوں سے گپ شپ کو ٹیلی ویژن ہڑپ کرگیا اور لوگ گھروں کے کسی ایک کونے میں سمٹ گئے پھر کمپیوٹر آیا تو تنہائی نے اپنی لپیٹ میں لے لیا اسکے ساتھ ساتھ موبائل فون کا کلچر بھی خوب خوب پنپنے لگا اور موبائل فون تو دیکھتے ہی دیکھتے اتنا بے وقعت ہوا کہ کچھ مت پوچھئے‘ جس بھینس پر بیٹھ کر کبھی کوئی بانسر ی بجایا کرتا تھا اب وہاں موبائل پر گفتگو ہونے لگی اور گفتگو بھی کیا”جی بس ابھی دریا تک پہنچا ہوں‘ ذرا دیر بھینس پانی میں بیٹھے گی تب تک میں گھاس کاٹ لوں گا شام تک آجاؤں گا
اورہاں ذرا اماں کو کہنا کہ وہ میٹھی روٹی بنا دے کیا کیا مسائل ڈسکس ہو رہے ہیں‘ بے چارہ گراہم بیل آج زندہ ہوتا تو سرپیٹ کر رہ جاتا پیغام رسانی کا یہ آلہ اب محض ایک کھیل تک محدود ہوگیا ہے یقینا اس سے بعض لوگوں کو فائدہ بھی ہوتا ہوگا مگر زیادہ تر پریشانی ہی پریشانی ہے پھر اس کی گھنٹیاں فلمی نغموں کی دھنوں سے لے کر بچوں کے رونے تک اور مختلف جانوروں کی آوازوں سے لے کر چیخنے چلانے تک کی سی ہونے لگیں جو یوں تو سارا دن خاموش رہتی ہیں مگر نماز کے دوران جنازے کو کاندھا دیتے ہوئے یا کسی سنجیدہ محفل کے دوران اچانک بہ آواز بلند بجنا شروع ہو جاتی ہیں جس سے سننے والے ڈسٹرب اور صاحب فون شرمندہ ہو جاتا ہے کبھی کبھی صورتحال یوں بھی ہو جاتی ہے کہ ایک بار نشتر ہال میں ایک سنجیدہ محفل میں موجود ایک سینئر شاعر ادیب کوئی بات کر رہے تھے کہ اچانک موبائل کی آواز گونجی‘ شاعر نے غصے میں حاضرین کی طرف دیکھا اور پھر بات شروع کی مگر موبائل تھا کہ بجتا ہی رہا بالآخر غصے میں حاضرین سے مخاطب ہو کر کہا اسے تو بند کیجئے نا‘ میں قریب ہی تھا میں نے کہا حضور ہم نہیں بند کر سکتے خشمگیں نگاہوں سے مجھے گھور کر کہا کیوں نہیں بند کر سکتے؟میں نے کہا جناب کیسے بند کریں آپ کی جیب میں ہاتھ ڈال کر۔غصہ میں کھول کر بولے اچھا یہ میرے والا ہے۔ خیراسی موبائل پر جب سے مختصر پیغامات (SMS)کا سلسلہ شروع ہوا ہے تو اب ایک نیا کھیل شروع ہوگیا ہے۔ پہلے تو اسے ہر کمپنی نے سستا کیا اور لوگوں کو رغبت دلائی کہ فون کی بجائے میسج کریں اور پھر لوگ اس جال میں ایسے پھنسے کہ اب کوئی راستہ نکلنے کا نہیں ہے پہلے سارا دن فون کانوں سے لگارہتا۔ گلی کوچے اور سڑکوں پر آتے جاتے فون کانوں سے یوں چپکارہتا جیسے پوری قوم کے
کانوں میں درد ہے اب وہ آنکھوں سے ہٹتا نہیں ہے اور انگلیاں مسلسل پیغام لکھنے میں مصروف ہیں یہ سہولت ظاہر ہے صرف پڑھے لوگوں کیلئے تھی اس سے بے چارہ ان پڑھ نوجوان فائدہ نہیں لے سکتا تھا اور یہ بات کمپنی والوں کو کھل رہی تھی کہ اس طرح سے ان کے کسٹمر اس سہولت سے فائدہ نہیں اٹھارہے تھے پس انہوں نے ایک نئی چال چلی اور کہہ دیا اب ایس ایم ایس بولا بھی جاتا ہے‘جو نہی آپ کو کوئی اچھا میسج ملتا ہے آپ بے چین ہو جاتے ہیں کہ اسے فوراً کسی اور کے ساتھ شیئر کیا جائے یوں دیکھتے ہی دیکھتے وہ ایک میسج پورے شہر میں پھیل جاتا ہے‘ساری موبائل کمپنیاں صارفین کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھا کر اپنی تجوریاں بھرنے لگتی ہیں موبائل کلچر میں ایس ایم ایس کا کمپنیوں کو توبے پناہ فائدہ ہو رہا ہے لیکن ایک لحاظ سے یہ کھیل ماحول کی ادبی وثقافتی آبیاری بھی کررہا ہے کہ بعض اوقات کہیں نہ کہیں سے کوئی خوبصورت لائن پڑھنے کومل جاتی ہے مجھے معلوم ہے کہ زیادہ تر نوجوان محض گڈیا بیڈ جو کس کا ہی تبادلہ کرتے ہیں مگر اب کچھ دنوں سے بعض خوبصورت اشعار‘نظمیں اور اقوال پر مبنی پیغامات کا تبادلہ بھی ہونے لگا۔ اس اقتباس کا حاصل مطالعہ یہ ہے کہ جوایجادات انسانی زندگی میں آسانی لاتی ہیں اگر ان کا استعمال دانشمندی سے نہ کیا جائے تو وہ مسائل کا باعث بھی بن سکتی ہیں۔