’سندھ ماس ٹرانزٹ اتھارٹی‘ نے ’پنک پیپلز بس سروس‘ کا آغاز کیا ہے جو خواتین کے لئے خصوصی طور پر مختص ’پبلک ٹرانسپورٹ‘ ہے کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ سے جڑے خواتین کے مسائل کو دیکھتے ہوئے یہ سروس درست اقدام ہے جس سے نہ صرف خواتین کے لئے ملازمتی مواقع پیدا ہوئے ہیں بلکہ اُنہیں باسہولت و باوقار آمدورفت جیسی سہولت فراہم کر کے مالی طور پر خود مختار بننے میں مدد بھی دی گئی ہے۔ ورلڈ بینک کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں افرادی قوت میں خواتین کی شرکت دنیا میں سب سے کم یعنی قریب 23 فیصد ہے اور جب ہم آبادی اور رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے شہر (کراچی) کی بات کرتے ہیں تو یہ کہنا مبالغہ آرائی نہیں کہ کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کی حالت صرف خراب نہیں بلکہ خوفناک حد تک خراب ہے اور اب جبکہ ’پنک بس سروس‘ کا آغاز بھی کر دیا گیا ہے تو یہ پورے کراچی یعنی تمام راہداریوں (روٹس) کا احاطہ نہیں کرتی۔ خواتین کو آمدورفت میں جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اُن میں مختلف طریقوں سے ہراساں کئے جانے کے واقعات سب سے زیادہ ہیں اور اِسی وجہ سے خواتین کی ایک بڑی تعداد یا تو خود گھروں سے باہر نہیں نکلتی یا اُنہیں گھر سے نکلنے نہیں دیا جاتا‘ کورونا وباء کے بعد سے ’ریموٹ ورکنگ آپشنز‘ عام ہوئے ہیں لیکن گھر سے کام کرنے کے امکانات تربیت کے ناکافی ہونے کی وجہ سے بھی کم ہیں۔ اِسی طرح کام کاج کے مقامات پر آمدورفت کرنے والی خواتین کو اپنی تنخواہوں کا ایک بڑا حصہ سفر پر خرچ کرنا پڑتا ہے۔ طالب علموں کے لئے غیر محفوظ پبلک بسوں کا مطلب یہ ہے کہ وہ شہر بھر کے اچھے تعلیمی اداروں میں داخلہ نہیں لے سکتیں۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے اگر سندھ حکومت نے خواتین کے لئے محفوظ نقل و حرکت کا نظام وضع کیا ہے جو ابتدائی شکل میں ہے تو یہ اپنی جگہ اہم ہے۔ خواتین کے لئے خصوصی بس سروس جو فی الحال ایک ہی ’روٹ‘ پر چلائی جائے گی کی واضح شناخت کے لئے اِسے ’گلابی‘ رنگ والی بسوں سے نمایاں کیا گیا ہے اور اِس میں سفر کرنے والی خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے سکیورٹی کیمرے نصب کئے گئے ہیں۔ بسوں کی قابل ذکر خصوصیت یہ بھی ہے کہ اِس میں خواتین کنڈکٹر تعینات کی گئی ہیں‘ جس سے مسافر خواتین کو تحفظ کا احساس زیادہ ہوگا۔ اگرچہ گلابی بسیں تاخیر سے لیکن متعارف کرا دی گئی ہیں اور اِن کا عملاً تجربہ بھی جاری ہے تو فیصلہ سازی کے منصب پر فائز شخصیات کو سوچنا چاہئے کہ آخر خواتین کے لئے گھروں سے باہر نکلنا اس قدر مشکل کیوں ہے اور الگ بسوں کی صورت اُنہیں خصوصی سفری سہولیات کیوں فراہم کرنا پڑ رہی ہیں اور یہ سہولیات بھی محفوظ نہیں کیونکہ اِن کی حفاظت کے لئے کیمروں کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ کیا امن و امان اور پبلک ٹرانسپورٹ کی فراہمی سے متعلق حکومتی محکمے مربوط کام کرتے ہوئے اس بات کو یقینی نہیں بنا سکتے کہ وہ خواتین کے لئے بالعموم سازگار و محفوظ ماحول کی فراہمی یقینی بنائیں؟ پبلک ٹرانسپورٹ میں جنسی ہراسانی صرف کراچی ہی کا نہیں بلکہ پورے ملک بشمول خیبرپختونخوا کا مسئلہ بھی ہے لیکن اِس قسم کے واقعات روکنے کے لئے خاطرخواہ اقدامات و انتظامات نہیں کئے جاتے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ خواتین کے خلاف جرائم کرنے والوں کو قرار واقعی اور فوری سزائیں نہیں دی جاتیں‘ جس کی وجہ سے یہ جرائم پھیل رہے ہیں۔ عموماً دیکھنے میں آتا ہے کہ موٹر سائیکل رکشہ‘ آٹو رکشہ‘ چنگ چی یا موٹر سائیکلوں پر سفر کرنے والی خواتین کو بھی ہراساں کیا جاتا ہے اور اُن کی ویڈیوز بنا کر‘ بڑے ہی فخر سے سوشل میڈیا پر جاری (شیئر) کی جاتی ہیں۔ سماجی رویئے تبدیل کئے بغیر‘ دیکھنا یہ ہے کہ خواتین کے مختص (وقف) بس سروس کتنی کارآمد (کارگر) ثابت ہوتی ہے۔ اصل ضرورت سماجی روئیوں میں تبدیلی (بہتری) کی صورت بہتری ’طویل المعیاد منصوبہ بندی‘ کی ہے۔ ایک ایسا ماحول پیدا کرنے کی ضرورت ہے جس میں خواتین خود کو محفوظ تصور (محسوس) کرسکیں۔ خواتین کے لئے مختص بسوں میں کیمرے لگا کر اُنہیں محفوظ تو بنا دیا گیا ہے لیکن کیا بسوں کی انتظار گاہیں (بس سٹاپس) اور گھر سے اِن انتظارگاہوں یا انتظارگاہوں سے گھر تک آمدورفت بھی محفوظ ہو گی؟ ضرورت ایسے اقدامات و انتظامات کی ہے جس میں مرد اور عورتیں بغیر کسی خوف کے آزادانہ طور پر نقل و حرکت اور مل جل کر اپنی معاشی بہتری اور بحیثیت مجموعی قومی ترقی میں خاطرخواہ کردار ادا کر سکیں۔